………………………………………………
(بقیہ حاشیہ گزشتہ صفحہ) نمکین پلاؤ کی دیگیں پکائیں اور تمام مریدین قادیان کو دعوت دی۔ ایڈیٹر الحکم نے بھی خوب پلاؤ گوشت سے پیٹ ٹھونسا اور اس وقت اسے ذرا خیال نہ آیا کہ مجھ میں کوئی شیطانی رگ باقی ہے۔ ششم! جب مرزاصاحب پر ہنری کلارک صاحب نے مقدمہ دائر کیا اور ڈگلس صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے بٹالہ میں قیام کیا اور مرزاصاحب نے سب مریدوں کو تاردیا اور سب نے بٹالہ آکر کئی روز ڈیرہ کیا۔ اس وقت بندہ نے ہی سب کی مہمان نوازی کا ذمہ اٹھایا اور ہر طرح کے اخراجات کو گوارا کیا۔ اس کے علاوہ میرا گھر ہمیشہ مرزاصاحب کے مریدوں کے لئے ہوٹل رہا جو چاہتا قادیان جاتے وقت بھی ٹھہرتا اور جو چاہتا قادیان سے آتے وقت بھی وہاں ہی اترتا۔ خواجہ کمال الدین اور مفتی محمد صادق اور کئی ایسے معزز مریدوں کی بیویاں رات کو میرے ہی گھر میں آرام کرتی رہیں۔ اس وقت ایڈیٹر صاحب نے کسی اپنے پیر بھائی کو اطلاع نہ دی کہ مجھ میں کوئی شیطانی رگ باقی ہے۔ ہفتم! مرزاصاحب نے مجھے سرکاری طور پر اپنا مختار بھی کر دیا تھا۔ اگر ان کو مجھ پر کوئی شک وشبہ ہوتا تو یہ ذمہ داری کا کام میرے سپرد کیوںکیا جاتا۔ اس جگہ یہ منظور نہیں کہ میں اپنی خدمت گزاریاں جتلاؤں۔ خدائے علیم بذات الصدور خوب جانتا ہے۔ اس قدر بیان کرنا صرف ایڈیٹر الحکم کے خیال کے مٹانے کو ضروری تھا۔ کاش وہ مضمون لکھتے وقت جناب مرزاصاحب کا مشورہ لیتے اور معقول بحث کی طرف توجہ فرماتے۔ گیند کے پھاڑنے سے چیتھڑے ہی نکلیں گے۔ آئندہ احتیاط کو کام میں لائیں اور حسب شرائط حقیقت المہدی کا جواب لکھ کر دوصد روپیہ پائیں۔ اب رہا باغ کا معاملہ سو اس کا علم ایڈیٹر صاحب کو بخوبی حاصل ہے۔ خود مرزاصاحب نے اپنے خسر اور بیوی صاحبہ کے کہنے سے باغ کا اہتمام میرے ذمہ ڈالا اور یہ ضرورت ان کو اس واسطے پڑی کہ آپ کی بیوی صاحبہ کو عورتوں کے ہمراہ باغ میں جانے اور دل بہلانے کا شوق ہے اور جب وہ باغ میں جاتی تھیں تو ٹھیکہ دار باغ ان کو باغ کے اندر نہیں آنے دیتے تھے۔ کیونکہ وہ خود درختوں سے پھل پھول توڑنا چاہتی تھیں۔ اس لئے انہوں نے اپنے فائدہ کے لئے باغ میرے سپرد کیا اور جب تک باغ میرے پاس رہا مرزاصاحب کی بیوی صاحبہ تمام عورتوں کو ہمراہ لاتی رہیں۔ وہ اپنے ہاتھوں سے پھل پھول توڑتی رہی ہیں بلکہ آتے وقت ہر ایک عورت جھولیاں بھر کر خاوندوں کے لئے بھی لے جاتی رہی ہیں۔ ایڈیٹر الحکم کی بیوی نے بھی ان کے آگے کئی دفعہ میوہ جات نظر کئے ہوں گے۔ ایڈیٹر صاحب کو یہ بھی معلوم ہے کہ میں نے محض مرزاصاحب کی بیوی کی خاطر غیروں کے پاس باغ فروخت نہیں کیا۔تاکہ ان کو اور ان کی ہمجولنوں کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ علاوہ اس کے پھل کے دنوں میں آموں کے ٹوکروں کے ٹوکرے عام مریدوں کے لئے بھی آتے رہے (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)