نوٹ… ہماری آنکھوں میں درد ہے۔ اس لئے بمواجہ اور سماعت خود مسلخواں سے بیان تحریر کرایا۔ دستخط حاکم! ۲۰؍جولائی ۱۹۰۴ء فریقین حاضر، مولوی کمال الدین ومنشی محمد علی وکلاء استغاثہ!
گواہ صفائی نمبر۱… باقرار صالح، مرزاغلام احمد، میں نے کرم الدین ملزم کو کبھی لکھتے ہوئے نہیں دیکھا جس خط کا میں نے ذکر کیا ہے اس سے پہلے کوئی خط وکتابت ملزم کے ساتھ میری نہیں ہوئی۔ میں ملزم کے خط پہچان۱؎ بھی نہیں سکتا۔ بیان مورخہ ۹ا؍اگست ۱۹۰۳ء بمقدمہ حکیم فضل دین بنام مولوی کرم الدین روبروئے رائے چندولال صاحب میں نے سن لیا وہ بیان میرا ہے اور درست ہے۔ ای نمبر۳ میں نے پڑھ لیا ہے۔ اس میں پہلا خط میرے نام ہے اور دوسرا مولوی عبدالکریم کے نام۔ میں نے کوئی خط مشمولہ خط اوّل ہاتھ سے نہیں لکھا ہوا دیا تھا۔ مولوی عبدالکریم نے لکھا اس واسطے میں نے کہا ہے کہ میرا قاعدہ ہے کہ انہیں سے یعنی مولوی عبدالکریم سے ہر ایک خط لکھوادیا کرتاہوں۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے پہلے کوئی خط مولوی عبدالکریم سے لکھوایا ہو۔ اگر لکھا ہوگا تو میری اجازت سے لکھا ہوگا۔ مجھے یاد نہیں کہ کوئی خط میرے نام آیا کہ نہیں۔ کارڈ پی نمبر۵ وہ کارڈ ہے جو مولوی کرم الدین کے خط میں مجھ کو ملا جو ۲۱؍جولائی ۱۹۰۲ء کو لکھا ہے۔ (پہلے یہ کہا تھا کہ یہ کارڈ پی نمبر۵ پیر مہر علی شاہ کے خط میں پہنچا)(نزول المسیح ص۶۸، خزائن ج۱۸ ص۴۴۶) پر یہ عبارت۲؎ درج ہے۔
۱؎ یہ سبق آپ کو حکیم الامۃ صاحب کی شہادت سے ملا۔ ذرا آپ بھی خطوط شناسی کے دعویدار بنتے اور حکیم جی کی طرح آپ کی مبصری کی قلعی بھی کھلتی۔ حکیم جی نے بہت بڑے ادّعا خطوط شناسی کے بعد جس قدر سخت ٹھوکریں خطوں کے پہچاننے میں کھائی تھیں ان کے بیان بمقدمہ فضل دین پڑھنے سے ظاہر ہے۔ حتیٰ کہ عدالت نے اپنے فیصلہ میں بھی اس امرکا نوٹ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امام الزمان نے خطوط شناسی کا دعویٰ کرنے کی جرأت نہ کی۔
۲؎ حضرت کا یہ تیسرا تمغۂ صداقت ہے۔ جو عدالت کی طرف سے آپ کو عطا ہوا ہے۔ مبارک، مبارک، مبارک۔ آپ نے ٹھیک فرمایا تھا کہ حق الیقین عدالت کے ذریعے ہوتا ہے۔ پس اب جب عدالت آپ کو تین تمغے صداقت کے بخشتی ہے تو پھر پبلک کو حق ہے کہ وہ حق الیقین ہے۔ آپ کو بیشک جھوٹ کہنے میں تامل نہیں ہے۔ حتیٰ کہ سراجلاس عدالت بھی آپ اس عادت سے باز نہ آئے۔ جھوٹ نمبر۲۸!