(نزول المسیح ص۶۷، خزائن ج۱۸ ص۴۴۵) پر عبارت ذیل حاشیہ پر درج ہے۔ میں نے بھی اسی قدر مضمون لکھا تھا کہ مجھے آج ۲۶؍جولائی ۱۹۰۲ء کو موضع بھیں سے میاں شہاب الدین دوست مولوی محمد حسن بھیں کا خط ملا۔ اس خط کا لفافہ مولوی عبدالکریم کے نام تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ خط مولوی عبدالکریم نے مجھے دیا یا نہیں، پڑھا گیا تھا۔
(نزول المسیح ص۷۲، خزائن ج۱۸ ص۴۵۰) پر درج ہے کہ شہاب الدین کچھ اراد۱؎ت رکھتا ہے۔ اس لئے پیر مہر علی کے سرقہ کے برآمد کرانے کے لئے کوشش کی۔ اس خط کے علاوہ میرے نام اور کوئی خط نہیں آیا۔ مجھے یاد نہیں ہے۔ ملزم کرم دین کا خط میرے نام آیا تھا اور اس کا لفافہ میرے نام تھا۔ وہ خط پڑھ کر میں نے مولوی عبدالکریم کو دے دیا۔
(سراج الاخبار مورخہ ۶؍اکتوبر ۱۹۰۲ء ص۶ کالم اوّل) میں راقم مضمون لکھتا ہے کہ الحکم کا پرچہ ایڈیٹر نے اس کے پاس نہیں بھیجا۔ اس بات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ جھوٹے اور فرضی خط میرے اور میرے شاگرد میاں شہاب الدین کے نام سے اس اخبار میں درج کئے ہیں۔ اسی اخبار کے ص۶ سطر۳ میں لفظ اور کا کلمہ ابتدائے کے واسطے ہے۔ عطف۲؎ کے واسطے نہیں۔ پچھلے فقرہ کے ساتھ اور کسی بعد کے فقرہ کا تعلق ہے۔ میں۳ ؎ نہیں جانتا کہ اور کس قسم کا ہے۔ اگر اور کا کلمہ عطف کا ہو تو اس کے مابعد کا جملہ معطوف اور یہ جملہ معطوف علیہ ہوگا۔ ہرحال۴؎ میں معطوف تابع معطوف علیہ کا نہیں ہوتا۔ سطر تین میں اور کے لفظ کے مابعد کا جملہ پہلے جملہ کا تابع نہیں ہے۔ مابعد والے میں زیادہ بیان ہے۔ ماقبل میں کم جھوٹ اور افتراء کلام کے مفہوم سے تعلق رکھتا ہے جو انہیں الفاظ سے نکالا جاتا ہے۔
۱؎ حالانکہ آپ اپنے بیان حلفی میں برخلاف اس کے کہہ چکے ہیں کہ وہ آپ کا مرید نہیں۔ نزول المسیح والی تحریر کو جھوٹ کہیں یا بیان کو دونوں تو سچے نہیں ہوسکتے۔ جھوٹ نمبر۲۷!
۲؎ ساری دنیا جانتی ہے کہ اور کا کلمہ عطف کے واسطے ہوتا ہے۔ لیکن امام الزمان اس سے انکارکرتے ہیں۔ کیوں اس لئے کہ اگر حرف عطف مانیں تو مستغیث کے استغاثہ میں سقم آتا ہے۔ واہ صاحب واہ چہ خوش!
۳؎ کس قدر شرم کی بات ہے کہ باوجود ادّعا ہمہ دانی کے آپ کی لیاقت وقابلیت کا یہ حال ہے کہ آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ اور کہ میں کہ کس قسم کا ہے :’’بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا۔جو چیرا تو اک قطرۂ خون نہ نکلا‘‘
۴؎ یہ مسئلہ مسلمہ ہے کہ معطوف معطوف علیہ کا تابع ہوتا ہے۔ لیکن مرزاقادیانی کی علمیت پر ہزار افسوس ہے کہ آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ معطوف تابع معطوف علیہ کا ہوتا ہے: ’’چوبانگ دہل ہولم از دور بود۔بغیت درم عیب مستور بود‘‘مرزائیو! کیا اپنے مرشد کی یہ علمی پردہ دری دیکھ کر پھر بھی آپ کے اعتقاد میں کچھ فرق نہ آئے گا۔