مگر تعجب ہے کہ حاکم نے مجھے دیکھتے ہی کرسی۱؎ دی۔ لیکن وہ شخص جو بقول اخبار جہلم اس قدر معزز تھا کہ ہزارہا آدمی اس کو سجدہ کرتے تھے۔ اس کو قریباً چار گھنٹہ۲؎ تک حاکم نے اپنے سامنے کھڑا رکھا اور آخر دونوں مقدمے اس کے خارج کئے اور پھر غلام۳؎ حیدر خاں نے حاکم عدالت کو وہ ہزار آدمی دکھلائے جو میرے دیکھنے کے لئے موجود تھے۔ جب میں واپس کوٹھی میں آیا وہ سب میرے ساتھ تھے۔ گویا میری کوٹھی کے اردگرد ایک لشکر اترا ہوا تھا اور سردار ہری۴؎ سنگھ صاحب نے سات سو آدمی کی دعوت سے جو نہایت مکلف دعوت تھی ثواب کا بڑا حصہ لیا۔
۱؎ ہائے کرسی ہائے کرسی! افسوس آپ کا یہ غرور بھی آخر خدا نے توڑ دیا۔ مرزاقادیانی سچ بتائیے گا لالہ آتمارام صاحب مجسٹریٹ گورداسپور کی عدالت میں کتنے کتنے گھنٹے آپ کو کھڑا رہنا پڑا۔ منشی سنسار چند صاحب نے تو نہ صرف آپ کو بلکہ تمام حاضرین کمرہ کے لئے کرسیاں اور بنچیں بچھوا دی تھیں۔ جن پر ہر کہ ومہ بیٹھے ہوئے تھے۔
۲؎ یہ بھی سفید جھوٹ ہے۔ مولوی صاحب بھی کرسی پر ہی بیٹھے رہے تھے۔ صرف بیان لکھانے کے وقت کھڑے ہوئے تھے۔ جس پر چار منٹ بھی نہ خرچ ہوئے تھے۔ ۴گھنٹہ کھڑا رہنا ایسا جھوٹ ہے جس کی تصدیق کوئی شخص بھی نہ کرے گا۔ جھوٹ نمبر۷۔
۳؎ اس کی تردید منشی غلام حیدر صاحب نے اپنے حلفی بیان میں جو انہوں نے بمقدمہ ایڈیٹر الحکم لکھایا۔ صاف طور پر کر دی ہے۔ اس لئے ہم ایک معزز گواہ (جس کو مرزائیوں نے پیش کیا ہے) کے مقابلہ میں مرزاقادیانی کی اس تحریر کو سچا نہیں سمجھ سکتے اور نیز اس لئے بھی کہ مرزاقادیانی نے خود اپنے حلفی بیان میں لکھایا ہے کہ مجھ کو اچھی طرح یاد نہیں کہ غلام حیدر نے عدالت کو میرے مرید دکھائے تھے۔ جھوٹ نمبر۷۔
۴؎ یہ بھی بالکل جھوٹ ہے۔ سردار ہری سنگھ صاحب اس روز جہلم میں ہی نہ تھے۔ جیسا کہ منشی غلام حیدر خان صاحب نے اپنے بیان میں لکھایا ہے۔ کوئی دعوت سردار صاحب نے نہیں کی۔ بلکہ تین دن مرزاقادیانی جہلم میں ٹھہرے تھے۔ تینوں دن ان کے مریدوں نے ہی دعوت کی۔ چنانچہ ایڈیٹر الحکم نے اپنے اشتہار میں صاف کہا ہے۔ مختصراً ہم اپنی جہلم کی جماعت کی مہمان نوازی کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے تین دن تک ڈیڑھ ہزار آدمیوں کی روزانہ دعوت کا فیاضی سے انتظام کیا۔ سو یہ بڑی بے انصافی ہے کہ جن غریبوں نے زرکثیر خرچ کر کے مرزاقادیانی کو پلاؤ زردے کھلائے ان کا نام ہی ندارد۔ مفت کا ثواب ملتا ہے تو سردار صاحب کو۔ جھوٹ نمبر۹