قریب۱؎ باراں سو آدمی یہیں بیعت میں داخل ہوئے۔ یعنی میرے مرید ہوئے اور باقی کل۲؎ مریدان کی طرح تھے اور نذریں دیتے تھے اور نماز پیچھے پڑھتے تھے۔ آخر جب مقدمہ پیش ہوا تو میں اپنے وکیلوں کے ساتھ گیا۔ اس وقت میں نے ایک شخص سیاہ۳؎ لنگی سرپر حاکم عدالت کے سامنے کھڑا ہوا دیکھا۔ معلوم ہوا کہ وہی کرم دین ہے۔
۱؎ جہلم میں بارا سو مرد مان کا داخل بیعت ہونا بھی ڈبل جھوٹ ہے۔ جس کی تردید مرزاقادیانی کے اپنے مخلص مرید کرتے ہیں۔ اخبار الحکم مطبوعہ ۲۱؍جنوری۱۹۰۳ء میں لکھا ہے کہ ’’تمام سفر جہلم میں جس قدر زن ومرد نے مرزاقادیانی کے ہاتھ پر بیعت کی ان کی تعداد آٹھ سو کے قریب ہے‘‘ اور رسالہ ریویو آف ریلیجنز مطبوعہ ۲۰؍فروری۱۹۰۳ء کے صفحہ۸۰ پر بیعت کنندگان جہلم کی تعداد ۶سو درج ہے۔ اب ان شاہدان عدل کی شہادت سے صاف ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی کا بیعت کنندگان جہلم کی تعداد باراں سو لکھنا ایک سفید جھوٹ ہے۔ جھوٹ نمبر۵۔
۲؎ یہ بھی صریح جھوٹ ہے جو لوگ اس روز دور دراز سے یہاں مقدمہ کا تماشہ دیکھنے آئے تھے ان میں سے بجز معدووے چند اشخاص کے جو مرزاقادیانی کے مرید ہوں باقی کل آپ کے عقیدہ کے مخالف لوگ تھے۔ پھر آپ کا یہ کہنا کہ باقی کل مریدان کی طرح تھے اور نذریں دیتے تھے اور نماز پیچھے پڑھتے تھے۔ کیسا صریح جھوٹ ہے اور باقی بعض یا اکثر کی قید ہوتی تو بھی کچھ صداقت کا احتمال ہوتا۔ باقی کل کی قید تو ضرور ہی اس جملہ کو جھوٹا بنا دیتی ہے۔ حضرت جی! یہ تو بتائیں کہ وہ ۳۰،۳۴ہزار خلقت کس میدان میں جمع ہوکر آپ کے پیچھے نماز پڑھ سکتی تھی۔ اس میدان کا بھی پتہ بتایا ہوتا۔ چونکہ حضور والا نے یہ چٹھی ایسے وقت میں لکھی جب غصہ کے غلبہ نے عقل وہوش ٹھکانہ نہ رہنے دئیے تھے۔ اس لئے ایسی دور از قیاس باتیں لکھ کر آپ نے ناحق راستی کا خون کیا۔ جھوٹ نمبر۶۔
۳؎ جناب والا! اس روز آپ کے مخالف مولوی نے نہ سیاہ بلکہ سفید زری لنگی سر پر باندھی ہوئی تھی۔ لیکن صرف حضرت اقدس کی آنکھوں میں فوجداری مقدمہ کی ہیبت سے سارا جہان سیاہ نظر آتا تھا۔ جیسا کہ آپ نے اپنی کتاب مواہب الرحمان میں اعتراف کیا ہے۔ ’’وان یجعل نہارنا اغسی من لیل واجیۃ الظلم‘‘ (مولوی کرم دین نے چاہا کہ ہمارے روز روشن کو شب ویجور سے تاریک تر کر دے) اس لئے آپ نے سفید لنگی کو بھی سیاہ ہی سمجھا۔ اس لئے آپ کو اس بارہ میں معذور سمجھ کر اس غلط بیانی کا مزید نمبر نہیں دیا جاتا۔