گیا۔ اس لئے آپﷺ خاتم النّبیین ہوئے اور آپﷺ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں جس کو منصب نبوت عطا ہو ورنہ معاذ اﷲ آپﷺ کے دین اور تعلیم کو ناقص ونامکمل ماننا پرے گا اور اس صورت میں زبردست استحالہ لازم آتا ہے۔ علامہ ابن کثیر اس آیت کے تحت فرماتے ہیں۔ ’’ہذا اکبر من نعم اﷲ تعالیٰ علی ہذہ الامۃ حیث اکمل اﷲتعالیٰ دینہم ولا یحتاجون الیٰ دین غیرہم ولا الیٰ نبی غیر نبیہم صلوٰت اﷲ وسلامہ علیہ ولہذا جعلہ اﷲ خاتم الانبیائ‘‘ (ابن کثیر ج۳ ص۲۲)
ترجمہ: یہ اﷲ پاک کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس امت پر کہ اس نے ان کے واسطے ان کے دین کو کامل فرمادیا۔ اب وہ کسی اور دین کے محتاج نہیں اور نہ کسی دوسرے نبی کے سوا اپنے نبی کے۔ یہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو خاتم الانبیاء بنادیا۔ مرزاقادیانی کہتے ہیں۔ ’’فلا حاجۃ لنا الیٰ نبی بعد محمدﷺ‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۴۹، خزائن ج۷ ص۲۴۴)
پاکٹ بک احمدیہ کے مصنف نے اس آیت ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ کا یہ جواب دیا ہے کہ تورات بھی تمام تھی مگر اس کے بعد بھی کتاب آگئی۔ قرآن شاہد ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام پر بھی نعمت پوری کی گئی۔ انعام صرف نبوت ہی نہیں آیت کی رو سے نبوت صدیقیت شہادت صالحیت سب انعام ہیں۔ کیا یہ بھی بند ہیں۔‘‘ (ملخص ص۵۲۰)
جواب… تورات بے شک فی نفسہ تمام تھی مگر اپنے وقت اور قوم کے واسطے گذشتہ نبی مخصوص قوموں کی طرف مبعوث ہوتے تھے۔ (مرزائی پاکٹ بک ص۴۲۳)
’’وکان النبی یبعث الیٰ قومہ خاصۃ وبعثت الیٰ الناس عامہ‘‘
(بخاری ومسلم باب فضائل سید المرسلین)
پہلے نبی اپنی اپنی قوم کی طرف آئے اور میں تمام دنیا کی طرف۔
ہاں تورات اپنی ذات میں تمام تھی مگر کامل دین الٰہی اور اتمام نبوت اور تعلیم عالمگیر کی رو سے ناقص تھی۔ اب قرآن شریف اور دوسری کتابوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی کتابیں اگر ہر طرح کے خلل سے محفوظ بھی رہتیں۔ پھر بھی بہ وجہ ناقص ہونے تعلیم کے ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم ًآئے۔ مگر قرآن شریف کے واسطے اب یہ ضرورت درپیش نہیں۔ کیونکہ کمال کے بعد اور کوئی درجہ نہیں۔ تو نئی شریعت اور نئے الہام نازل ہونے میں امتناع عقل لازم آیا۔ آنحضرتﷺ حقیقت میں خاتم الرسل ہیں۔ (براہین احمدیہ حاشیہ ص۱۱۰، خزائن ج۱ ص۱۰۱)