مفہوم واضح ہے خدا نے اور رسول بھیجے اور کتابیں بھیجیں اور سب کے آخر حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو بھیجا جو خاتم الانبیاء اور خیر الرسل ہے۔ (حقیقت الوحی ص۱۴۱، خزائن ج۲۲ ص۱۴۵)
مرزائیو! کیا یہاں بھی جو قول مرزا ہے آخر کے معنے افضل واعلیٰ کے ہیں۔ حالانکہ زمانے کوجس قدر حضورﷺ سے بعد ہورہا ہے اسی قدر اس سے خیرونکوئی اٹھتی جارہی ہے۔ ’’کما ورد فی الحدیث‘‘
اس آیت میں لفظ ثم خاص قابل غور ہے جو کہ عربی زبان میں تراخی (مہلت) کے لئے آتا ہے۔ مثلاً اگر کہا جائے کہ ’’جائنی القوم وثم عمر‘‘ تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ پہلے تمام قوم آئی اس کے بعد عمر آیا اسی طرح اس آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ تمام انبیاء کے تشریف لانے کے بعد سرور انبیاء تشریف لائیں گے۔ چنانچہ حضرت علیؓ اور ابن عباسؓ اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں۔ ’’مابعث اﷲ نبیا من الانبیاء الا اخذ علیہ المیثاق لئن بعث اﷲ محمد اوہو حی لیؤمنن بہ ولینصرنہ وامر ان یاخذ المیثاق علیٰ امتہ لئن بعث محمد وھو احیاء لیؤمنن بہ ولینصرنہ‘‘
ترجمہ: اﷲتعالیٰ نے جس نبی کو مبعوث کیا اس سے یہ وعدہ لیا کہ اگر اس کی زندگی میں اﷲ نے حضورﷺ کو مبعوث کیا تو اس کو حضور پر ایمان لانا چاہئے اور ضرور نصرت کرنی چاہئے اور اسی طرح اس نبی کو حکم دیا کہ وہ اپنی امت سے پختہ عہد لے کہ اگر ان کی زندگی میں نبی محترمﷺ مبعوث ہوں تو ان کو آپﷺ پر ضرور ایمان لانا چاہئے اور نصرت کرنی چاہئے۔
(تفسیر ابن کثیر ج۲ ص۵۸)
اس آیت میں رسول کا لفظ نکرہ ہے مگر اس کی تخصیص ابن عباس اور علیؓ نے کر دی۔ اگر اس سے انکار کیا جاوے تو ’’ربنا وابعث فیہم رسول‘‘ اور ’’لقد جائکم رسول‘‘ وغیرہ وغیرہ میں تخصیص کس طرح ہوگی۔
آٹھویں آیت
’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (المائدہ:۶)‘‘ مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ قرآن شریف نے تورات وانجیل کی طرح کسی دوسرے نبی کا حوالہ نہیں دیا۔ بلکہ اپنی کامل تعلیم کا تمام دنیا میں اعلان کر دیا اور فرمایا۔ ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ (براہین احمدیہ ص۲۰۳، خزائن ج۱ ص۲۲۷)
اس آیت میں اکمال دین بھی آگیا اور اتمام نعمت بھی اور اس کے بعد رضیت بھی فرمایا