مورخہ ۲۷؍جنوری۱۹۰۳ ء میں وہ خبر پڑھ کر جو جہلم کے اخبار سے آپ نے لکھی ہے سخت افسوس ہوا۔ ہم نے آپ کے اخبار کا خریدنا اس خیال سے منظور کیا تھا کہ اس میں سچا۱؎ئی کی پابندی ہوگی۔ مگر آج کے اخبار میں جس قدر صریح جھو۲؎ٹ کو آپ نے شائع کیا ہے۔ شاید دنیا میں اس کی کوئی نظیر ہو یا نہ ہو۔ اخبار نویس کا فرض ہے کہ گوبمد منقولات کچھ درج کرے۔ تاہم جہاں تک ممکن ہو اس کی تحقیق کرلے۔ کیونکہ ہر ایک روایت قابل اعتبار۳؎ نہیں۔ خاص کر اس زمانہ میں جب کہ اکثر لوگ دہریہ طبع ہوگئے ہیں۔ ہر ایک راست پسند کا فرض ہے کہ بے تحقیق خلاف واقعہ لکھ کر اپنے اخبار کی عزت پر بٹہ نہ لگاویں۔ اب میں آپ پر ظاہر کرتا ہوں کہ حال واقعی یہ ہے کہ کرم الدین جس کو جہلم کے خود غرض اخبار نے اس قدر اوپر چڑھادیا ہے۔ ایک معمولی۴؎ آدمی ہے نہ گورنمنٹ۵؎
۱؎ آپ یوں کیوں نہیں کہتے کہ آپ کے اخبار کے خریدار ہم اس لئے بنے تھے کہ آپ ہماری نبوت ومسیحیت کی تشہیر میں مدد دیں اور آپ کے اخبار کے ہر ایک کالم میں ہمارا ہی ذکر خیر ہوا کرے گا۔ لیکن آپ کے اخبار میں تو ہمارے مخالفین کا بھی ذکر ہونے لگا ہے۔ رہی سچائی کی پابندی، سو اس سے جب مسیح الزمان کو ہی کچھ غرض نہ ہو تو اخبار نویس پر کیا الزام۔ آپ کی سچائی کی قلعی اسی چٹھی سے کھلتی ہے۔ جیسا کہ آگے آتا ہے۔
۲؎ جس مضمون میں آپ کے مخالفین کا تذکرہ ہو وہ تو ایسا جھوٹ ہو جاتا ہے کہ اس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن جس مضمون میں آپ کی مسیحیت نبوت کی بانگ دی جائے۔ اس میں تمام جہان کی صداقتیں بھر جاتی ہیں۔
۳؎ بس وہی روایت قابل اعتبار ہے۔ جس کے راوی خود بدولت مرزاقادیانی بہادر ہوں یا ان کی امت سے کوئی ہو۔ خواہ مرشد ومریدین اس روایت میں خود ہی ایک دوسرے کی تکذیب کر رہے ہوں۔ کما سیاتی!
۴؎ آج کوئی جاکر حضرت جی سے پوچھے کہ کرم الدین کیسا ایک معمولی آدمی ہے جس نے حضور انور کو دو سال تک آرام نہ لینے دیا اور جس کی لیاقت وقابلیت کے آپ اور آپ کے وکلاء بھی معترف ہوگئے۔
۵؎ فرمائیے حضرت! کیا آپ کو بھی گورنمنٹ سے کرسی ملتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر آپ نے اس وقت حاکم سے کیوں استدعا نہ کی۔ جب گورداسپور میں لالہ آتمارام صاحب کے اجلاس میں دن بھر کھڑے رہنے سے آپ کی ٹانگیں خشک ہو جاتی تھیں۔