سوال… (نزول المسیح ص۷۲، خزائن ج۱۸ ص۴۵۰ حاشیہ) پر جو نوٹ ہے۔ آٹھ سطروں کا وہ آپ پڑھ کر اور نیز (الحکم مورخہ ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۲ء ص۳) پر جو نوٹ قبل از خطوط کے تیسرے کالم میں درج ہے اس کو پڑھ کر بتائیے کہ دونوں ایک ہیں کہ نہیں؟
جواب… دونوںایک ہیں۔ نزول المسیح ابھی شائع نہیں ہوئی اور الحکم شائع ہوچکی ہے۔ پس جس جماعت میں نزول المسیح جائے گی جس میں الحکم پہلے خوب طرح شہرت پاچکی ہے اس لئے سرقہ نہیں ہے۔
سوال… مشہور اور شہرت سے آپ کی کیا مراد ہے؟
جواب… قرآن کا کوئی کلمہ ان لوگوں کے سامنے جو قرآن جانتے اور حدیث کا کوئی فقرہ جو حدیث جانتے ہیں۔ شعراء کا کلام ان لوگوں میں جو اس قسم کے اشعار کو پڑھتے ہیں اور ادیب لوگوں کے فقرے اور کسی زبان کی ضرب المثلیں ان لوگوں میں جو اس زبان کی ضرب المثلوں اور کلمات کے واقف ہوں اور اسی طرح کسی حکیم کا فقرہ ان لوگوں میں جو حکماء کے فقروں سے آگاہ ہوں۔ بلا اس کے کہ مصنف کا نام بھی وہ مشہور ہوتا ہے۔ اسی طرح سے کوئی کلام جب کسی قوم میں شہرت پاجاوے۔ وہ کلام مشہور کہلاتا ہے۔ ایک فقرہ کی نسبت دو نقطہ چینوں کو یا شارحین کو ممکن ہے کہ توارد ہو جائے۔ اعجاز المسیح کو میں معجزہ مانتا ہوں۔ وہ علی العموم مرزاقادیانی کا کلام ہے۔ کہیں کہیں فقرہ خاص کوئی الہام کا بھی ہوگا۔ جو شرائط مرزاقادیانی نے معجزہ کے واسطے بیان کی ہوں۔ ان شرائط کی پابندی سے وہ سارا کام نہیں ہوسکتا۔ معجز نما کلاموں میں بھی دوسرے مصنفوں کی عبارات اور فقرات داخل ہو جاتے ہیں۔ جرح ختم ہوئی۔ مورخہ ۲۵؍جون ۱۹۰۳ئ، دستخط حاکم!
گواہ نے کل اظہار پڑھ کر ہر ایک صفحہ پر اپنی العبد کی اور صفحہ۵۵ اور صفحہ۵۶ پرنسپل کے نوٹ کر دئیے اور ریڈر کے سامنے نوٹ کئے گئے۔ جن کے مواجہ میں گواہ نے اظہار پڑھا۔
(دستخط حاکم)
الحاصل! شہادت گواہان صفائی ملزمان ختم ہونے پر عدالت نے حکم دیا کہ ۲۰؍ستمبر کو بحث سنی جائے گی۔ چنانچہ ۲۰کو ۱۰؍بجے سے خواجہ کمال الدین صاحب وکیل ملزمان نے بحث شروع اور ۴؍بجے کو ختم کی۔ مرزائی جماعت خواجہ صاحب کی تقریر پر فدا ہورہے تھے اور ان کے ہر ایک فقرہ پر جھوم جھوم کر واہ واہ اور سبحان اﷲ سبحان اﷲ کی آواز ان کے منہ سے نکلتی تھی۔ گو اونچی آواز نکالنے سے رعب حاکم مانع تھا۔ ۲۱ کو ۹؍بجے صبح سے شروع کر کے ایک بچے تک مولوی محمد کرم الدین صاحب مستغیث نے نہایت قابلیت سے واقعات کی بحث کی عدالت نے مولوی