جو نوٹس کرم دین نے مرزاقادیانی کو اگر دیا ہو اس کا ذکر میرے سامنے مجلس میںکبھی نہیں آیا۔ مجھ کو۱؎ یاد نہیں ہے کہ جہلم کے مقدمات کا مجلس میں کبھی ذکر آیا کہ نہیں۔ ان مقدمات کا جو اس وقت دائر ہیں مرزاقادیانی کی مجلس میں میرے سامنے کبھی ذکر نہیں آیا۔ یہ مجھ کو یاد نہیں ہے کہ خواجہ کمال دین کو مشورہ کے لئے بلایا ہو۔ حکیم صاحب جب کبھی سفر میں جاتے ہیں تو مجھ کو کبھی خبر ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی۔ جب وہ لکھنؤ کو سفر پر گئے تھے تو مجھ کو خبر نہیں تھی اور نہ وہ مجھ کو کہہ کر گئے۔ جب وہ جہلم گئے تھے تو انہوں نے مجھ کو کہا کہ وہاں کی کوئی فرمائش ہو تو لاؤں۔ ایک بیوی ان کی قادیان میں رہتی ہے۔ کئی مہینے ہوئے کہ ان کی دو بیویاں یہاں تھیں۔ سال کے اندر کی بات ہے کہ ان کی دو بیویاں یہاں تھیں۔ معلوم نہیں ہے ان کی دوسری بیوی آج کل کہاں ہے۔ سرقہ کی تعریف جو میںنے کی ہے وہ مرشدی اور دیگر بیان کی کتابوں میں پائی جاتی ہے۔ جیسے مطول اکبر مختصر معانی ایک چھوٹی کتاب ہے۔ مگر بہت مختصر ہے جو تعریف سرقہ کی میں نے سنائی تھی۔ وہ نثر کے لئے عام طور پر ہے اور نظم میں بھی آتی ہے۔ ہر قسم کی نثر میں بھی آتی ہے۔ مختصر معانی میں عام سرقہ کی تعریف اس جگہ نہیں لکھی جو مجھ کو وکیل ملزم نے دکھائی ہے۔ اعجاز المسیح پی نمبر۶ اور سیف چشتیائی پی نمبر۵ کا آپس میں مقابلہ کیا۔ یعنی پی نمبر۵ کے ۱۸۷ صفحہ تک اور پی نمبر۵ کے ص۷۰ سے ص۸۰ تک اکثر مقام بعینہ ہیں۔ یعنی جیسے سیف چشتیائی میں ویسے ہی اعجاز المسیح میں کہیں کہیں تھوڑی سی عبارت سیف چشتیائی میں زیادہ ہے اور کہیں کہیں اعجاز المسیح کے حاشیوں میں زیادہ ہے۔ یعنی کہیں کہیں بہت خفیف کم وبیشی ہے۔ لفظوں کی کم وبیشی ہے وہ بھی بہت کم اعجاز المسیح کے صفحہ ایک کے نوٹ سیف چشتیائی میں نہیں ہیں۔
سوال… سیف چشتیائی پی نمبر۵ کے ص۷۳ سے ص۷۶ کے اخیر تک جو عبارت ہے وہ اعجاز المسیح کے نوٹوں میں کہیں ہے؟
جواب… یہ عبارت۲؎ اعجاز المسیح پی نمبر۶ کے حاشیہ پر نہیں ہے۔
۱؎ کاہے کو ذکر ہونا تھا۔ جہلم کے مقدمات کون سی اتنی بڑی بات تھی۔ لیکن حضرت مسیح کے سر پر تو اس وقت قیامت برپا تھی اور دن رات ایک ہوگئے تھے۔ جیسا کہ مواہب الرحمن میں لکھا ہے۔ ’’یجعل نہارنا اغسی من لیلۃ واجیۃ الظلم‘‘ ادھر حواری ہیں کہ ان کو خبر تک بھی نہیں۔ اچھا یوں ہی سہی۔
۱؎ پھر تو مضمون بلکہ ورقوں کا فرق نکل آیا۔ آپ تو لفظوں کی کم وبیشی اور وہ بھی بہت کم فرماتے تھے۔