دینی ہے۔ پھر میں کیوں کر دعویٰ نبوت کر سکتا ہوں۔ حالانکہ میں مسلمان ہوں۔
اب ناظرین سے بادب التماس ہے کہ مرزاقادیانی کی اس عبارت کو غور سے پڑھیں۔ ایک دفعہ نہیں بلکہ دو تین مرتبہ پڑھیں اور جو حضرات عربی نہیں جانتے وہ ترجمہ اردو کو دیکھیں جو ہم نے بلا کم وکاست کیا ہے یا اس پر اعتبار نہ ہو تو کسی عربی دان سے ترجمہ کرالیں اور پھر اس بات کا خود فیصلہ کریں کہ یہ عبارت آپ کی نسبت زمانہ حال میں جب کہ آپ نے دعویٰ نبوت کر دیا ہے۔ کیا فتویٰ تجویز کرتی ہے۔ صاف کہنا پڑے گا کہ آپ کی یہ تحریر آپ کے برخلاف بوجہ ادّعاء نبوت، کفر، الحاد، زندقہ، خروج عن الاسلام، لحوق بالکفار کا فتویٰ تجویز کرتی ہے۔
عبارت بالا جو قدرت نے کسی زمانہ میں مرزاقادیانی کے اپنے ہاتھ سے لکھائی ہے مسائل ذیل کا تصفیہ کرتی ہے۔
۱… مرزاقادیانی کو ادّعائے نبوت کا کوئی حق نہیں۔ ’’وما کان لی ان ادّعی النبوۃ‘‘
۲… مدعی نبوت کا خارج از اسلام ہے۔ ’’واخرج من الاسلام‘‘
۳… نبوت کا دعویٰ کرنے والا کفار سے ملحق ہے۔ ’’والحق بقوم کافرین‘‘
۴… مرزاقادیانی کے وہ سب الہامات جو دعویٰ نبوت کے باعث ہوئے ہیں کتاب اﷲ کے مخالف ہونے کی وجہ سے ناقابل تسلیم ہیں۔ ’’وہا انی لا اصدق الہاما‘‘
۵… ایسا دعویٰ اور الہام جو قرآن کے خلاف ہو کذب، الحاد، زندقہ ہے۔ ’’واعلم انہ کلما یخالف القرآن‘‘ اس لئے مرزاقادیانی کا دعویٰ نبوت جھوٹ، الحاد، بے دینی ہے۔
۶… مرزاقادیانی دعویٰ نبوت کے بعد مسلمانوں میں شمار نہیں ہوسکتے۔ ’’فکیف ادّعی النبوۃ وانا من المسلمین‘‘ اب مرزاقادیانی اور ان کے مرید اور تمام مسلمان انصاف سے کہہ سکتے ہیں کہ مرزاقادیانی کی نسبت فتویٰ تکفیر کے لئے کسی اور مفتی کی طرف رجوع کرنے کی کوئی ضرورت باقی رہتی ہے یا ان کے وجوہات کفر پر کسی اور دلیل دینے کی ضرورت باقی رہتی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ مرزاقادیانی کی تحریر مندرجہ بالا ہی اس بارہ میں کافی حجت ہے اور ان کے حق میں فتوے کفر کے لئے یہ ان کا اپنا ناطق فیصلہ موجود ہے۔ کیا مرزاقادیانی کا کوئی مرید جرأت کر سکتا ہے کہ امام الزمان کے اس فیصلہ کو رد کرے اور مرزاقادیانی کو تو اب اپنی تحریر دیکھ کر اس شعر کا ورد کرنا پڑے گا۔
مردم از دست غیر نالہ کنند
قادیانی زدست خود فریاد