عقیدہ نمبر۲!
مرزاقادیانی نے یہ لکھایا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر چڑھائے گئے اور غشی کی حالت میں زندہ ہی اتارے گئے۔ سو واضح ہو کہ یہ عقیدہ علاوہ اس کے کہ احادیث رسول اکرمﷺ اقوال مفسرین اجماع جمیع مسلمین کے خلاف ہے۔ اس سے قرآن کریم کی آیات کی بھی سخت تکذیب ہوتی ہے۔ خدائے پاک نے تو صلیب پر چڑھانے کی صریح الفاظ میں نفی فرمائی ہے۔ ’’وما صلبوہ‘‘ انہوں نے اس کو صلیب پر نہیں چڑھایا۔ دیکھو ترجمہ مولانا شاہ رفیع الدین صاحب اور آپ اس کے خلاف کہتے ہیں کہ صلیب پر چڑھائے گئے۔ حتیٰ کہ غشی کی بھی نوبت پہنچی۔ اس خیال باطل کی تسلیم سے کہ یہودی اپنے منصوبہ شرارت میں یہاں تک کامیاب ہوئے کہ انہوں نے خدا کے سچے رسول (عیسیٰ) کو پکڑ کر صلیب پر کھینچ دیا اور جان کندن کی حالت کو پہنچا دیا۔ گو کسی حیلہ سے آخر وہ زندہ بچ گئے تو خدا کے اس برگزیدہ رسول کی کمال درجہ کی توہین اور یہودیوں کی فتح ثابت ہوتی ہے۔ ایسی زندگی سے تو مرجانا اچھا تھا۔ جب کہ دشمن نے ان کو سخت ایذائیں پہنچائیں۔ ان کو صلیب دے کر نیم مردہ کر دیا تو پھر مسیح کی عزت اور رب العزت کا کمال قدرت کیا ثابت ہوا۔ خدائے پاک تو مسیح سے وعدہ کرے کہ میرے حضور میں تیری اس قدر عزت ہے کہ تیرے تابعین بھی تیرے مخالفین (یہود وغیرہ کفار) پر قیامت تک غالب رہیں گے۔ ’’وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ‘‘ اور ادھر تابع تو کہاں متبوع کی یہ گت دشمن کے ہاتھ سے ہوتی ہے کہ الامان!
مرزاقادیانی کو سچا کہیں یا آپ کو۔ اس فاسد عقیدہ سے تو قرآن کریم کی سراسر تکذیب ہوتی ہے اور دیکھئے خدائے کریم کا یہ بھی مسیح علیہ السلام سے وعدہ ہے۔ ’’ومطہرک من الذین کفروا‘‘ میں تجھے پاک رکھنے والا ہوں کفار سے۔
تو جب مسیح علیہ السلام ان ناپاک ہاتھوں (یہودیوں کے پنجہ میں) پھنسا دئیے گئے تو وعدہ تطہیر کہاں گیا۔ قرآن کریم نے فیصلہ کر دیا ہے۔ ’’انما المشرکون نجس‘‘ تو پھر ان نجس ہاتھوں میں عیسیٰ علیہ السلام کو اسیر کر دینا ’’ومطہرک‘‘ کے مضمون کے بالکل منافی ہے۔ نیز ایک اور صریح آیت بھی اس عقیدہ کا ابطال کرتی ہے جو خدائے پاک نے فرمایا ’’واذ کففت بنی اسرائیل عنک‘‘ میں نے بنی اسرائیل کے ہاتھ تجھے ایذا پہنچانے سے روک دئیے۔
اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل صلیب پر کھینچنا تو کجا مسیح علیہ السلام کو ہاتھ