ہوا کہ گواہان استغاثہ کو طلب کرائے۔ چنانچہ گواہان استغاثہ بادخال خرچہ طلبانہ طلب کرائے گئے۔
تاریخ مقررہ پر پھر مقدمہ پیش ہوا۔ مرزاقادیانی وفضل دین ملزمان معہ وکلاء خود حاضر آئے۔ اس تاریخ کو جری اﷲ (مرزاقادیانی بہادر) نے ایک اور منصوبہ سوچا (شاید اپنے ملہم نے بھی کچھ ہدایت کی ہو) کہ آج درخواست اس مضمون کی ہونی چاہئے کہ یہ مقدمہ تا انفصال دیگر مرزائی مقدمات کے ملتوی رہے۔ چنانچہ درخواست پیش کی گئی اور اس پر بھی مرزاقادیانی کے مخلص مرید خواجہ کمال الدین صاحب وکیل نے بڑی لمبی بحث کی اور قانون چھانٹے اور زور لگایا کہ اس مقدمہ کو ان مقدمات سے بڑا تعلق ہے جو حکیم فضل دین اور یعقوب علی (مرزائیوں) کی طرف سے مستغیث مقدمہ (مولوی کرم الدین) پر دائر ہیں۔ جب تک ان کا فیصلہ نہ ہو لے یہ مقدمہ بھی ملتوی رہے۔ حاضرین اس درخواست اور بحث پر تعجب کرتے تھے کہ ایسے فضول حیلوں سے کیا کام نکل سکتا ہے؟ کیوں نہیں مرزاقادیانی سینہ سپر ہوکر سیدھے میدان میں نکلتے اور فضول ٹال مٹول کر کے اپنی بزدلی ظاہر کرتے ہیں۔ الغرض بعد اختتام تقریر وکیل ملزمان کے وکلاء استغاثہ نے اپنی مفصل بحث میں اس درخواست کے فضول اور بے بنیاد ہونے پر دلائل دئیے اور ثابت کیا کہ اس مقدمہ کو ان مقدمات سے کیا واسطہ۔ یہ عجیب بات ہے کہ مرزائیوں کے مقدمے تو چلتے رہیں اور غریب الوطن مولوی کرم الدین ان مقدمات میں خراب ہوتے رہیں۔ لیکن ان کا مقدمہ داخل دفتر رہے اور ان مقدمات کے انفصال پر اس مقدمہ کی تحقیقات پر ایک ممتدزمانہ اور خرچ کیا جاوے۔ فی الجملہ بعد بحث وکلاء فریقین اس درخواست کا وہی حشر ہوا جو مرزاقادیانی کی سابق درخواست کا ہوا تھا۔ عدالت نے کہا مقدمہ چلے گا۔ ملزم کی درخواست نامعقول ہے نامنظور کی جاتی ہے۔
اس دوسری شکست نے تو جری اﷲ کے حوصلہ کو اور بھی پست کر دیا۔ مرزاقادیانی وکلاء کی طرف اور وکلاء مرزاقادیانی کے منہ کو دیکھنے لگے اور دل میں کہنے لگے ؎
چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی
اب سوال یہ ہے کہ اگر مرزاقادیانی کے کان میں ہر وقت آسمان سے ندا (وحی) پہنچا کرتی ہے تو کیوں فضول درخواستیں کر کے خواہ مخواہ اپنی خفت کرائی۔ کیا اس بارہ میں پہلے کوئی الہام نہ ہوا کہ تمہاری یہ محنت رائیگاں جائے گی۔ ایسی عبث درخواستیں کر کے اپنی سبکی مت کراؤ۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ مرزاقادیانی ملہمیت نبوت تو بجائے خود ایک مؤمن کی سی بھی فراست نہیں رکھتے۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ ’’اتقوا فراسۃ المؤمن فان المؤمن ینظر بنور ربہ‘‘ مؤمن کی فراست سے ڈرنا چاہئے کہ وہ اپنے خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔