اگر مرزاقادیانی کو نور فراست سے بھی کچھ ذرہ ملا ہوا ہوتا تو وہ اپنی خداداد فراست سے بھی سمجھ لیتے کہ یہ فضول عذرات ہیں۔ خلاصہ یہ کہ درخواست نامنظور ہوکر حکم ہوا کہ مقدمہ ۱۷؍اکتوبر کو پیش ہو اور اس تاریخ کو گواہان استغاثہ بھی حاضر آئیں۔ ۱۷؍اکتوبر کو پھر مقدمہ پیش ہوا۔ ملزمان بھی اصالتاً حاضر آئے۔ اس تاریخ کو مستغیث کا بیان قلمبند ہوا اور مولوی برکت علی صاھب بی۔اے گواہ استغاثہ کی شہادت ہوئی۔ وکلاء ملزمان نے جرح محفوظ رکھی۔ چونکہ دوسرے گواہوں کی اطلاع یابی نہ ہوئی تھی۔ مکرر طلب ہوئے اور تاریخ پیشی ۱۲،۱۳،۱۴؍نومبر ۱۹۰۳ء مقرر ہوئی۔ ۱۲؍نومبر کی تاریخ پر ایک عجیب نظارہ پیش آیا۔ جس وقت فریقین کو پکار ہوئی تو مستغیث حاضر ہوا اور ملزمان میں سے صرف مرزاقادیانی حاضر آئے۔ فضل دین نہ آیا۔ وکیل نے کہا کہ فضل دین سخت بیمار ہے۔ حاضری سے اس کو آج کی تاریخ کے لئے معاف کیا جائے۔ وکلاء استغاثہ نے اعتراض کیا کہ ملزم زیرضمانت ہے۔ اس کو ضرور حاضر ہونا پڑے گا۔ آخر عدالت نے حکم دیا کہ ملزم کو آنا پڑے گا۔ اگر یوں نہیں آسکتا تو چارپائی پر اٹھا کر لے آؤ۔ آخر مجبوراً مرزاقادیانی کے مخلص حواری حکیم فضل دین ملزم کو ان کے پیربھائی چارپائی پر اٹھا کر لے آئے۔ اس وقت ایک عجیب اداسی کا عالم مرزائیوں میں چھایا ہوا تھا۔ کیونکہ مرزاقادیانی ان کو ہمیشہ سنایا کرتے تھے ’’انی معین من ارادا عانتک‘‘ لیکن یہاں کچھ اور ہی نقشہ باندھا ہوا ہے۔ حکیم جی زبان حال سے کہہ رہے ہیں ؎
میں حاضر ہوں گو سخت بیمار ہوں
جو چاہو سزا دو سزاوار ہوں
اجی میرزا جی بتاؤ ذرا
میں کیوں اس بلا میں گرفتار ہوں
ہوں مخلص حواری تیرا جاں نثار
تو پھر اس قدر کیوں ہوا خوار ہوں
کہاں وہ اعانت کے دعوئے ہوئے
میں الہاموں سے تیرے بیزار ہوں
الغرض فضل دین ملزم بحکم عدالت کمرہ عدالت کے باہر لٹائے گئے اور شہادت گواہان قلمبند ہونی شروع ہوئی۔ بیان گواہان ذیل قلمبند ہوئے۔ مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے وکیل ملک تاج دین صاحب واصل باقی نویس جہلم، مولوی ابوالوفا ثناء اﷲ صاحب مولوی فاضل امرتسر، مولوی عبدالسبحان صاحب ساکن مسانیاں، مولوی اﷲدتہ ساکن سوہل، وکیل ملزمان نے کہا کہ وہ گواہان پر جرح محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ حاکم نے کہا کہ پھر آپ کو چارج لگنے سے پہلے جرح کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ وکیل نے کہا کہ نہیں مجھے حق ہونا چاہئے۔ لیکن حاکم نے کہا کہ اگر جرح کرنی ہے تو کرو ورنہ بعد فرد جرم لگنے کے جرح کا موقعہ ملے گا۔ اس پر وکیل صاحب نے کہا کہ آج تیار نہیں