حکم صادر ہوا اور تاریخ مذکور پر مرزاقادیانی اور فضل دین ملزمان اصالتاً حاضر عدالت ہوئے حاضر ہوتے ہی ایک تحریری درخواست مرزاقادیانی کی طرف سے ان کے وکیل خواجہ کمال الدین صاحب نے پیش کی کہ ملزم کو زیردفعہ ۲۰۵ ضابطہ فوجداری اصالتاً حاضری سے معاف فرمایا جاوے۔ اس پر وکلاء طرفین کی بحث ہوئی۔ وکیل ملزم اس بات پر زور دیتا تھا کہ لالہ سنسار چند صاحب مجسٹریٹ جہلم نے بھی ملزم کو اصالتاً حاضری سے معاف کیا تھا اور عدالت مذکور کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔ ادھر سے شیخ نبی بخش صاحب اور بابو مولامل صاحب وکلاء منجانب استغاثہ پیروکار تھے۔ انہوں نے بالتفصیل بیان کیا کہ ملزم کو اصالتاً حاضری سے معاف کرنے کی کوئی وجہ نہیں جب کہ مستغیث اور اس کے گواہان ایک دور دراز ضلع جہلم سے آتے ہیں تو ملزم کو یہاں سے ۱۲کوس (قادیان) سے آنے میں کون سی مصیبت ہے۔ اگر لالہ سنسار چند صاحب نے اس کو اس بنا پر حاضری سے مستثنیٰ کیا تھا کہ اس کو جہلم میں ایک دور جگہ ضلع گورداسپور سے آنا پڑتا ہے تو اب وہ علت موجود نہیں بلکہ اب تو ملزم کی نسبت مستغیث کو دقت ہے کہ وہ بعید مسافت طے کر کے یہاں آتا ہے۔ الغرض اس تاریخ کو بڑے معرکہ کی بحث وکلاء طرفین میں ہوئی اور مرزاقادیانی اور ان کی جماعت کو یقین تھا کہ حاضری عدالت کی مصیبت سے ضرور مخلصی ملے گی۔ لیکن جو بات قدرت نے حاکم عدالت لالہ چندولال صاحب کے دل پر ڈالی وہ یہ تھی کہ اس شخص سے یہ رعایت ہونا منشاء الٰہی کے خلاف ہے۔ قدرت کی طرف سے یہ سلسلہ اس لئے شروع ہوا کہ زمین وآسمان بنانے کے مد (آئینہ کمالات ص۵۶۵،خزائن ج۵ ص ایضاً) کو ایک مجازی حاکم کی جوتیوں میں کھڑا کر کے اس کو قائل کیا جائے کہ تو ایسا نہیں جیسا ادّعا کرتا ہے۔ بلکہ تو ایک حقیر عاجز انسان ہے اور یہ تیرا افتراء ہے جو تو کہتا ہے کہ: ’’الارض والسماء معک کما ہو معے‘‘ (تذکرہ طبع۳ ص۶۵)کیا جس کے ساتھ زمین وآسمان ایسے ہوں جیسے خدائے ذی الجبروت کے تو وہ پھر یوں بیچارگی سے ایک مجازی حاکم کے سامنے پکڑا ہوا آسکتا ہے اور اس کے آگے چیخ چیخ کر روتا ہے کہ اب مجھے حاضر رہنے کی تکلیف سے بچائیے۔
الغرض بموجب اس فیصلہ کے جو آسمانی عدالت (بارگاہ رب العالمین) سے صادر ہوا۔ حاکم مجازی (مجسٹریٹ) نے یہی فیصلہ کیا کہ ملزم کو حاضر رہنا پڑے گا اور اس کی درخواست نامنظور ہے۔ حاضری کے لئے مچلکہ فوراً اس سے لیا جاوے۔ یہ حکم سنتے ہی مرزاقادیانی اور ان کی جماعت کے اوسان خطاء ہوگئے اور اس ابتدائی شکست نے ان کے دلوں کو شکستہ کر دیا۔ آخر حسب حکم عدالت مچلکہ داخل کیاگیا اورآئندہ پیشی کی تاریخ ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۳ء مقرر ہوئی اور مستغیث کو حکم