ناظرین کی تمہید سے اس امر کا علم ہوچکا ہے کہ بناء استغاثہ مرزاقادیانی کی کتاب مواہب الرحمن ہے جو ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء کو جہلم میں تقسیم کی گئی تھی۔ سو اس کی بناء پر استغاثہ ۲۶؍جنوری ۱۹۰۳ء جہلم میں بعدالت لالہ سنسار چند صاحب ایم۔اے مجسٹریٹ درجہ اوّل جہلم دائر ہوا۔ جس کی نقل ذیل میں ہے۔
نقل استغاثہ بابت کتاب مواہب الرحمن
ابوالفضل مولوی محمد کرم الدین ساکن بھیں مرزاغلام احمد وحکیم فضل دین مالک مطبع
بنام
تحصیل چکوال ضلع جہلم مستغیث ضیاء الاسلام قادیان سکنائے قادیان ملزمان
جرم دفعہ ۵۰۰، ۵۰۱، ۵۰۲ تعزیرات ہند
تمہید استغاثہ یوں ہے۔
جناب عالی!
۱… مستغیث فرقہ اہل سنت والجماعت کا ایک مولوی ہے اور مسلمانوں میں خاص عزت اور امتیاز رکھتا ہے۔
۲… مستغیث نے ایک استغاثہ فوجداری بعلت ازالہ حیثیت عرفی برخلاف ملزمان نمبر۱،۲ نسبت اس ہتک وتوہین کے جو انہوں نے بذریعہ تحریرات مطبوعہ میرے بھائی وبہنوئی مولوی محمد حسن فیضی مرحوم کی کی تھی۔ عدالت لالہ سنسار چند صاحب مجسٹریٹ درجہ اوّل ضلع جہلم میں دائر کیا ہوا تھا۔ جس کی تاریخ پیشی ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء مقرر تھی۔
۳… ملزمان کو اس بات کا مجھ سے رنج تھا۔ اس واسطے ملزم نمبر۱ نے اپنی مصنفہ مؤلفہ کتاب مواہب الرحمن کے ص۱۲۹( خزائن ج۱۹ ص۳۵۰) پر مقدمہ مذکور کی نسبت پیش گوئی کے پیرایہ میں ایک تحریر شائع کی جس مین میرا صریح نام لکھ کر میری سخت تحقیر وتوہین کی گئی اور میری حیثیت عرفی کا ازالہ کیاگیا ہے۔ اس نیت سے کہ اس مضمون کی اشاعت پر مستغیث کی نیک نامی اور عزت کو جو مسلمانوں کے دلوں میں ہے صدمہ پہنچے اور میری وقاروآبرو کو نقصان پہنچے۔ چنانچہ تحریر مذکور کے فقرات ذیل قابل غور ہیں۔
الف… ’’ومن اٰیاتی ما انبائی العلیم الحکیم فی امر رجل لئیم وبہتانہ العظیم‘‘ ترجمہ واز جملہ نشا نشائے من انیست کہ خدا مرا دربارہ معاملہ شخص لئیم وبہتان بزرگ اوخبرداد ص۱۲۹۔