اوّل جو مہمان باہر سے آتے ہیں ان کی مہمان نوازی پر خرچ ہوتا ہے۔ یہ مہمان خاص مرزاقادیانی کے پاس آتے ہیں جہاں تک مجھے علم ہے کل مہمان مرزاقادیانی کے پاس علم دین سیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ کبھی ایسے مہمان بھی آجاتے ہیں جن کا ان سے محض دوستانہ تعلق ہے اور دین کی وجہ سے نہیں آتے۔ بعض صورتوں میں مرزاقادیانی کو لوگوں سے ہدایت ہوتی ہے کہ ان کا روپیہ مہمان نوازی میں خرچ ہو اور بعض صورتوں میں ایسی ہدایت نہیں ہوتی اور مرزاقادیانی خود بخود مہمان نوازی میں روپیہ صرف کرتے ہیں۔ جس روپیہ کی باہر کے لوگ تخصیص نہیں کرتے۔ اس کی نسبت مرزاقادیانی کو اختیار ہے کہ پانچ مدوں میں سے جس مد میں چاہیں خرچ کریں۔ مرزاقادیانی نے اوّل کتاب فتح اسلام اور توضیح مرام میں ان پانچوں مدوں کا ذکر کیا ہے۔ میں مرزاقادیانی کو اپنی گرہ سے روپیہ دیا کرتاہوں۔ لیکن تخصیص نہیں ہوتی کہ وہ ان پانچ مدوں میں سے فلاں مد میں خرچ کریں جو روپیہ میں دیتا ہوں وہ ان مدوں میں ضرور خرچ ہوتا ہے۔
دوسری مد خط وکتابت کی ہے، تیسری کتابوں کی، چوتھی قیام مدرسہ، پانچویں بیمار اور مساکین کی امداد کے لئے۔ ان باقی ماندہ مدوں میں جو روپیہ خرچ ہوتا ہے کبھی بھیجنے والے تخصیص کر دیتے ہیں۔ کبھی تخصیص نہیں کرتے۔ مرزاقادیانی کی رائے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ان پانچوں مدوں کے متعلق جس قدر روپیہ مرزاقادیانی کے پاس آتا ہے وہ خیرات کا ہے لنگر خانہ میں سے مرزاقادیانی خود کھانا اکثر کھالیا کرتے ہیں۔ کیونکہ انکار اپنا روپیہ بھی ان مدوں میں خرچ ہوتا ہے۔ ان مدوں کے روپیہ میں سے مرزاقادیانی اپنا کپڑا نہیں بناتے۔ لوگ مرزاقادیانی کو ان کے اپنے خرچ کے لئے بطور ہدیہ کے پیری مریدی کے طور پر دیا کرتے ہیں۔ لیکن میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کی آمدنی تخمیناً سالانہ کتنی ہے۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ ایسی آمدنی سالانہ پانچ سو روپیہ سے کم ہے یا زیادہ ہے۔ مرزاقادیانی کے بال بچے ہیں۔ تین لڑکے اور ایک لڑکی ایک لڑکا پڑھتا اور دو چھوٹے ہیں۔ ان کے لئے مرزاقادیانی کی اپنی آمدنی کافی ہے۔ مرزاقادیانی کے دو لڑکے اور بھی ہیں۔ لیکن ان سے مرزاقادیانی کا کوئی تعلق نہیں۔ ابھی چھوٹے لڑکے کی تعلیم پر جو پڑھ رہا ہے کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ لڑکی بھی دودھ پینے والی بچی ہے۔ مرزاقادیانی کے خسر پنشن پاتے ہیں اور آسودہ حال ہیں۔ نواب لوہارو کے رشتہ دار ہیں۔ معلوم نہیں کہ قریبی یا بعیدی۔ اس وقت مرزاقادیانی کی ایک عورت ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ ان کے خسر نے کیا زیور دیا۔ میں ساتھ نہیں گیا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ ان کی عورت کا اس وقت کس قدر زیور ہے۔ مجھے علم نہیں کہ اس سال میں یا کبھی پہلے کوئی زیور ان کی عورت کا بنا ہو۔ مرزاقادیانی بیوپار وغیرہ نہیں کرتے۔ ۵؍اگست ۱۸۹۸ئ، دستخط حاکم!