میں۱؎ نے اپنا باغ اپنی زوجہ کے پاس رہن کر دیا ہے۔ ابھی تک رجسٹری ہوئی ہے داخل خارج نہیں ہوا۔ لیکن قبضہ باغ کا دے دیا ہوا ہے۔ اس کے عوض چار۲؎ہزار کا زیور اور ایک ہزار روپیہ نقد میں نے وصول پایا ہے۔ یہ زر رہن ابھی تک میں نے کہیں لگایا نہیں ہے۔ میرے پاس پڑا ہے۔ تخمیناً دوہزار کا زیور میری زوجہ کا ان کی والدہ نے دیا تھا اور باقی کا۳؎ دوہزار روپیہ کا زیور چودہ سال میں میں نے اپنی زمینداری کی آمدنی سے ڈالا ہوا تھا۔ یہ دوہزار کا زیور بھی میں اپنی زوجہ کی ملکیت میں کر چکا تھا۔ میرے مریدوں سے مجھے تخمیناً پانچ ہزار دوسو روپیہ سالانہ کی آمدنی ہے۔ یہ آمدنی مجھے اس سال میں ہوئی۔ جس کی بابت انکم ٹیکس لگائی ہوئی ہے اور اوسط سالانہ آمدنی قریباً چار ہزار روپیہ کی ہوتی ہے۔ یہ تخمینہ میں نے یادداشت سے لکھوایا ہے۔ تحریری یادداشت میرے پاس کوئی نہیں ہے۔ اس میں سے میں اپنے ذاتی خرچ میں کچھ بھی نہیں لاتا اور نہ مجھے ضرورت ہے۔ میرا۴؎ اپنا ذاتی خرچ تو سات آٹھ روپیہ ماہوار میں ہوسکتا ہے۔ یہ روپیہ مختلف مدوں میں خرچ ہوتا ہے جس میں سے بڑی مد لنگر خانہ ہے۔ لنگر خانہ میں جو آٹا خرچ ہوتا ہے۔ اس کا حساب موضع ریہہ اور موضع پارو وال اور بٹالہ سا ہو کاران اور مالکان گھوراٹ سے دریافت ہوسکتا ہے۔
موضع ریہہ میں مہرسنگھ اور متاب سنگھ اوراٹل سنگھ سے اور اس کے حصہ دار اور ٹھیکہ داران سے اور موضع پارووال میں ٹھیکہ دا رکا نام یاد نہیں ہے۔ وہاں سے اور قصبہ بٹالہ میں دیر بھان بنایہ ولد گنڈامل سے لیتے رہے ہیں جس سال کی بابت انکم ٹیکس تشخیص ہوا ہے۔ اس سال میں آٹا بٹالہ
۱؎ واہ صاحب واہ! بیوی صاحبہ بھی آپ کی اچھی ہمدرد اور غمگسار ہیں۔ خاوند ایسا جو امامت نبوت بلکہ خدائی کا دعویدار اور گھر والوں کے نزدیک ایسابے اعتبار کہ بیوی صاحبہ قرضہ تب دیتی ہیں کہ جائیداد پہلے رجسٹری کرالی جاتی ہے۔
۲؎ مگر یہ عقدہ حل نہیں ہوا کہ پانچ ہزار روپیہ کی مرزاقادیانی کو کون سی ضرورت پڑی تھی۔ جس کے عوض اپنی جدی میراث اپنے ہاتھ سے کھو بیٹھے اور وہ روپیہ کن ضروریات دنیویہ یا دینیہ میں خرچ ہوا ہے۔
۳؎ بے شک آپ کی جان نثاری تو قابل داد ہے کہ اپنی عمر بھر کی کمائی بیوی صاحبہ کی زیورات کی نذر کر دی۔ البتہ ان کی سرد مہری پر افسوس ہے کہ آپ کو قرضہ دیتے وقت ساری جائیداد ہی سنبھال لی۔
۴؎ شاید وہ افواہ غلط ہوگی کہ سال بھر میں ہزاروں روپیہ کا عنبر ہی اڑ جاتا ہے۔ اگر اس افواہ کی بھی کچھ اصلیت ہے تو وہ کس ’’مد میں خرچ شمار ہوگا۔‘‘