پذیر ہوسکتے ہیں وہاں چند الہاموں کے الٹ پھیر سے ان بیچارے وکلاء کو بھی ترقی دی جاسکتی تھی۔ جس کے وہ مستحق تھے اورامید ہے کہ مرزاقادیانی اور ان کے دوست اس سہو پر غور کرکے اس موقعہ کو ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ مرزاقادیانی کے برخلاف مولوی کرم الدین صاحب کا استغاثہ نہیں چل سکا تو اب سنا ہے کہ مولوی محمد حسن صاحب مرحوم کے لڑکے استغاثہ کرنے والے ہیں۔ ہماری اب بھی وہی رائے ہے جو پہلے تھی کہ مسلمانوں کے مذہبی جھگڑوں کو عدالتوں میں نہیں گھسیٹنا چاہئے۔ دونوں فریق میں اگر کوئی عاقبت اندیش بزرگ ہیں تو وہ ان کو یہی صلاح دیں گے کہ مقدمہ بازی کو چھوڑ دیں۔
الحاصل! ادھر تو بیچارے وکلاء نے اس عذر پر کہ استغاثہ اس مستغیث کی طرف سے نہیں چل سکتا۔ مرزاقادیانی کو نجات دلائی ادھر مرزاقادیانی ایسے ناعاقبت اندیش مؤکل ہیں کہ اسی مستغیث کو خود ایک دوسرے استغاثہ کا مصالحہ تیار کر کے خود ہی اس کے ہاتھ دے گئے۔ یعنی کتاب مواہب الرحمن میں مستغیث کا صریح نام لکھ کر اس کو گالیاں دیں اور جہلم کے احاطہ کچہری میں اس کو تقسیم کیا۔ چنانچہ مرزاقادیانی مبارک بادیاں لیتے خوشیاں مناتے۔ قادیان میں پہنچے ہی ہوں گے کہ ادھر کتاب مذکور کی بناء پر دوسرا استغاثہ ۲۶؍جنوری ۱۹۰۳ء کو اسی حاکم لالہ سنسار چند صاحب کی عدالت میں دائر ہوگیا اور مرزاقادیانی اور ان کے حواری حکیم فضل دین بذریعہ وارنٹ وغیرہ پھر طلب ہوگئے۔ اس خبر پر قادیان دارالامان میں پھر ماتم برپا ہوگیا۔ ہر چند قادیانی صاحب نے اس مقدمہ کو ایک معمو۱؎لی سمجھ کر اس کے متعلق یہ الہام اخبار الحکم میں اسی وقت شائع کر دیا تھا۔ ’’ساکرمک اکراماً عجیبا‘‘ (الحکم مورخہ ۲۴؍فروری ۱۹۰۳ئ، تذکرہ ص۴۵۷، ۶۴۴، طبع سوم)
اس الہام کا یہ منشاء تھا کہ دیکھو ابھی تم کو عجیب اعزاز ملتا ہے یعنی استغاثہ خارج ہوتا ہے۔ ’’ساکرمک‘‘ کا سین قابل غور ہے۔ لیکن غیور خدائے ذوالجلال کو چونکہ مرزاقادیانی کے الہاموں کی بیخ کنی منظور تھی۔ اس معمولی مقدمہ نے مرزاقادیانی کو ایسا جکڑا کہ دو سال تک پیچھا نہ چھوڑا اور کوئی مصیبت کوئی ذلت نہ ہوگی جو کہ اکرام عجیب کے منتظر کو اثنائے مقدمہ میں نصیب نہ ہوئی ہو۔
۱؎ یہ امر کہ مرزاقادیانی کے الہام کا یہی منشاء تھا کہ ابتداء ہی میں آپ کو نجات مل جاوے گی۔ ان کی اس درخواست سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے جو کہ لالہ سنسار چند صاحب کی عدالت میں مرزاقادیانی کی طرف سے استثناء حاضری کے لئے گزری تھی۔ اس میں صاف درج تھا کہ امید نہیں کہ استغاثہ ابتدائی مراحل سے آگے چل سکے۔