دعاوی کی تردیدمیں کوئی دلیل پیش کرتے ہیں اور نہ مجھے مسیح وغیرہ مانتے ہیں تو اس ضدیت کے رفع کرنے کے واسطے ایک طریق فیصلہ کی طرف دعوت کرتا ہوں اور وہ طریق یہ ہے کہ پیر صاحب میرے مقابلہ پر دارالسلطنت پنجاب (لاہور) میں چالیس آیات قرآنی کی عربی تفسیر لکھیں اور ان چالیس آیات قرآنی کا انتخاب بذریعہ قرعہ اندازی کر لیا جاوے۔ یہ تفسیر فصیح عربی میں سات گھنٹوں کے اندر بیس ورق پر لکھی جاوے اور میں (مرزاقادیانی) بھی ان ہی شرائط سے جالیس آیات کی تفسیر لکھوں گا۔ ہر دو تفسیریں تین ایسے علماء کی خدمت میں فیصلہ کے لئے پیش کی جائیں گی جو فریقین سے ارادت وعقیدت کا ربط نہ رکھتے ہوں۔ ان علماء سے فیصلہ سنانے سے پہلے وہ مغلظ حلف لیا جاوے جو قذف محصنات کے بارہ میں مذکور ہے۔ اس حلف کے بعد جو فیصلہ یہ ہرسہ علماء فریقین کے تفسیروں کی بابت صادر فرمادیں۔ وہ فریقین کو منظور ہوگا۔ ان ہرسہ علماء کو جو حکم تجویز ہوں گے۔ فریقین کی تفسیروں کے متعلق یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ قرآن کریم کے معارف اور نکات کس کی تفسیر میں صحیح اور زیادہ ہیں اور عربی عبارت کس کی بامحاورہ اور فصیح ہے۔ اگر پیر صاحب خود یہ مقابلہ نہ کریں تو اور چالیس علماء ملک کر میرے مقابلہ پر شرائط مذکورہ سے تفسیر لکھیں تو ان کی چالیس تفسیریں اور میری ایک تفسیر اسی طرح تین علماء کو فیصلہ کے لئے دی جائیں گی۔ مرزاقادیانی کی یہ چٹھی تو ۱۲؍صفحہ کی ہے۔ مگر اس کی دلخراش گالیاں ناجائز نامشروع اور بیہودہ بدظنیوں کو حذف کر دیا جائے تو اس کا تمام ماحصل اور خلاصہ صرف یہی ہے جو اوپر کی چند سطروں میں لکھا گیا ہے۔ ہمیں نہ الہام کا دعویٰ ہے نہ وحی کا مگر یہ قیاس غالب ہے کہ اس خط میں حضرت پیر صاحب کو علی الخصوص مخاطب کرنا دو وجہ سے تھا۔
اوّل… یہ کہ صوفیائے کرام کا طریق ومشرب مرنج ومرنجان کا ہوتا ہے۔ یہ لوگ گوشہ تنہائی میں عمر کا بسر کرنا غنیمت سمجھتے ہیں۔ کسی کی دل شکنی انہیں منظور نہیں ہوتی۔ پھر حضرت صاحب ممدوح کے دینی مشاغل ومصروفیت سے بھی یہی قیاس ہوسکتا تھا کہ آپ عزلت نشینی اور للہی مصروفیت کو ہر طرح سے ترجیح دیں گے اور اس طریق فیصلہ کو جو حقیقتاً مرزاقادیانی کے دعاوی کی تصدیق کا فیصلہ نہیں تھا۔ پسند نہیں فرمائیں گے جو ظاہر بینوں کی نظروں میں مرزاقادیانی کی فتح یابی کا نشان ہوگا۔ نیز دوسرے علماء کرام کے ساتھ تحریری معارضہ کو چالیس والی شرط کے ساتھ گاٹھنا یہی راز رکھتا تھا۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ مرزاقادیانی چالیس سے کم علماء کے ساتھ کیوں ایسا تحریری مباحثہ نہیں کرتا۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اس کو جھوٹی شیخی اور بیہودہ تعلی دکھانی مطلوب تھی۔ ورنہ اگر صرف تصدیق دعویٰ اور ہدایت علماء مقصود ہوتی تو اس خاکسار نے جو۱۳؍اگست ۱۹۰۰ء کو سراج الاخبار جہلم میں بہ