مولانا… ان لوگوں کا فیصلہ تو آپ کو منظور نہ ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ دونوں جانب کے اہل علم جمع ہوں اور جو لوگ حکم مقرر ہوں وہ بھی ذی علم ومنصف مزاج ہوں اور جانبین کی تقریر کو خوب غور کے ساتھ دیکھ سن کر ایمان وانصاف کے ساتھ فیصلہ دیں۔ مجمع سے مراد یہی ہے نہ کہ چند آدمیوں کو جمع کر لینا۔
مرزائی… اس کی ضرورت نہیں۔
مولانا… آپ کا بے سروپا دعویٰ کہ غیرعیسیٰ کو عیسیٰ موعود ٹھہراتے ہیں۔ اس کو ہم کس طرح مان لیں۔ یہ تو ہر ذی علم جانتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم تھے اور آپ کے مرزاصاحب کی ماں کا نام چراغ بی بی ہے تو مرزا صاحب ابن مریم کس طرح ہوسکتے ہیں۔ ادنیٰ عقل والا آدمی بھی اس کو نہیں مان سکتا۔
مرزائی… اﷲتعالیٰ نے نوح پیغمبر کی عورت اور لوط پیغمبرکی عورت کو کافر ہونے کی وجہ سے دونوں کو ایک حکم میں رکھا اور آسیہ زن فرعون اور عیسیٰ مسیح کی مان مریم کو ان دونوں کو مؤمنہ ہونے کی وجہ سے ایک حکم میں رکھا تو ہمارے مرزاصاحب کی والدہ بھی مؤمن تھیں۔ لہٰذا اس پر قیاس کر کے مرزاصاحب کی والدہ کو بھی مریم کہہ سکتے ہیں۔
مولانا… جب یہی قاعدہ ہے کہ ہر مومنہ کو مریم کہہ سکتے ہیں تو ہر مسلمان کو ابن مریم کہہ سکتے ہیں۔ مرزاصاحب کی خصوصیت کیاہے؟ میری والدہ بھی مؤمنہ تھیں۔ آپ مجھ کو ابن مریم فرمائیے اور مرزاصاحب کے ساتھ جو اعتقاد ہے میرے ساتھ بھی وہی اعتقاد رکھئے۔
مرزائی… آپ دعویٰ کرتے ہیں ابن مریم ہونے کا۔
مولانا… آپ کے قاعدہ کی رو سے ہر مومنہ کا فرزند ابن مریم ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔
مرزائی… اﷲتعالیٰ فرماتا ہے جن کو لوگ اﷲ کے سوا پکارتے ہیں انہوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا۔ بلکہ وہ خود پیدا شدہ ہیں۔ زندہ نہیں اور انہیں یہ معلوم نہیں کب اٹھائے جائیں گے۔ (نحل:۲۰،۲۱)
مولانا… بت پرستوں کی نسبت اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ غیراﷲ کو پوجتے ہیں۔ وہ تو کچھ پیدا کر نہیں سکتے۔ حالانکہ وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں۔ (پتھر وغیرہ سے لوگ بناتے ہیں) وہ تو مردہ ہیں ذی روح نہیں ہیں۔ ان بتوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ لوگ کب اٹھائے جائیں گے۔
اس آیت کو وفات عیسیٰ علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن آپ لوگوں کا وفات مسیح میں اس قدر انہماک ہے کہ قرآن میں جس جگہ موت کا لفظ آیا تو مرزائیوں کا ذہن وفات عیسیٰ کی طرف منتقل ہوگیا اور بتکلف کھینچ تان کر حضرت عیسیٰ پر چسپاں کرنا چاہا۔ خلاصہ آپ کے اجتہاد کا