گے خنزیر کو اور موقوف کریں گے جزیہ۔ (یعنی کافر سے سوائے اسلام کے کچھ قبول نہ فرمائیں گے) اور مال کی کثرت ہوگی۔ یہاں تک کہ نہ قبول کرے گا مال کوئی شخص یہاں تک کہ ایک سجدہ تمام دنیا اور اس کی سب چیزوں سے بہتر ہوگا۔ یہ حدیث بیان کر کے ابوہریرہؓ کہتے ہیں۔ (اس حدیث کی تصدیق) چاہو تو آیت کریمہ پڑھو۔ ’’وان من اہل الکتاب‘‘ (آخرتک) (مشکوٰۃ باب نزول عیسیٰ علیہ السلام) ابن مریم علیہ السلام کا زندہ رہنا اور قبل قیامت کے نازل ہونا اس آیت کریمہ سے اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے سے پہلے سوائے حضرت یحییٰ اور حواریین اور بعض اشخاص کے اور کوئی شخص حضرت عیسیٰ پر ایمان نہیں لایا اور آپ کے مرزاصاحب پر بھی ان کی زندگی میں ایک بھی اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) ایمان نہیں لایا تو اب یقینا ماننا پڑے گا کہ عیسیٰ ابن مریم زندہ ہیں اور قرب قیامت میں آسمان سے نازل ہوئیں گے اور آپ کی وفات سے پہلے کل اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) آپ پر ایمان لے آئیں گے۔
مرزائی… آسمان کا لفظ اپنی طرف سے کیوں بڑھا دیا حدیث میں تو آسمان کا لفظ مذکور نہیں۔
مولانا… اس حدیث میں لفظ آسمان نہیں تو دوسری حدیث میں تو لفظ آسمان موجود ہے۔ ان دونوں حدیثوں میں اجمال اور تفصیل کا فرق ہے۔ ایک حدیث دوسری حدیث کی تائید وتصدیق کرتی ہے۔ دوسرے یہ کہ نازل ہونا تو اوپر سے اترنے کو کہتے ہیں۔ اگرچہ اترنا عام ہے کہ مکان ودرخت سے اترے یا ٹیلے اور پہاڑ پر سے لیکن اس حدیث میں مراد آسمان سے نازل ہونا ہے۔
مرزائی… اﷲتعالیٰ فرماتا ہے ’’انزلنا الحدید فیہ باس شدید‘‘ تو لوہا کیا آسمان سے اترتا ہے۔
مولانا… لوہا معدنی چیز ہے۔ لیکن کہہ سکتے ہیں کہ آسمان سے نازل ہوا ہے۔ اس لئے کہ بجلی سے اس کی پیدائش ہے۔ علامہ نور الدین ابوسعید بورانی نے کتب سیر سے پیدائش حاکم کے بیان میں لکھا ہے کہ ایک بجلی پہاڑوں میں پہنچی۔ اس سے معادن پیدا ہوئے۔ علاوہ اس کے لوہے وغیرہ کے ساتھ آسمان سے اتارنے کا ذکر نہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا حدیث میں صراحتاً مذکور ہے تو جو شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کا منکر ہے۔ وہ درحقیقت حدیث کا منکر ہے۔ آپ ایک مجمع کیجئے اور حکم مقرر ہوں اور ہماری اور آپ کی گفتگو ہو تب حق اور باطل ظاہرہو جائے۔
مرزائی… مجمع کی ضرورت نہیںہے۔ حاضرین جلسہ کو مجمع سمجھ لیجئے۔