لیکن خداوند کریم کا ہزار شکر ہے کہ عنان اختیار ایک ایسے متدین نکتہ رس انصاف مجسم حاکم بابو چندولال صاحب بی۔اے مجسٹریٹ کے ہاتھ میں تھی۔ جنہوں نے ہر حال میں انصاف کو اپنا جزو ایمان سمجھا ہوا تھا۔ انہوں نے مقدمہ کی حقیقت پر نگاہ ڈال کر اپنے مجسٹریٹی اختیارات کو جائز طور پر استعمال فرمایا اور اس بے وجود مقدمہ میں بجائے اجرائے وارنٹ بلاضمانت کے وارنٹ ضمانتی جاری فرمایا۔ تاہم مرزائی جماعت نے یہ بھی غنیمت سمجھا اور وارنٹ دستی حاصل کر کے تعمیل کے لئے ایک مخلص حواری شیخ یعقوب علی تراب ایڈیٹر الحکم کو مامور کر دیا کہ خود فریق ثانی کے دیہہ مسکن میں ذریعہ پولیس پہنچ کر تعمیل کرائے۔ تاکہ وہاں کے باشندگان یہ کارروائی دیکھیں اور اس کی خفت ہو۔ لیکن خداوند کریم کو چونکہ یہی منظور تھا کہ شیخی باز پارٹی اپنے تمام منصوبوں میں ناکام رہے اور فریق ثانی پر اس کا کوئی جادو نہ چل سکے۔ اتفاق سے مستغاث علیہ ان دنوں میں اپنے دیہہ مسکن میں موجود نہ تھا۔ اس لئے مسٹر تراب صاحب دوردراز فاصلہ کی صعوبات سفر برداشت کر کے موضع بھین۱؎ میں پہنچے اور ہر چند وہاں دشوار گزار کھنڈرات میں دن بھر بھٹکتے اور خاک چھانتے پھرے۔
۱؎ افسوس کہ مسٹر تراب نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مختلف مقاصد کے لئے اس وحشتناک سفر میں مبتلا ہوئے اورکبھی چکوال کبھی ڈوہمن کبھی بھین اور کبھی بادشاہاں ادھر ادھر صحرا نوردی فرماتے رہے۔ لیکن ایک دفعہ بھی فائز المرام نہ ہوئے اور ہر ایک دفعہ بہت سی تکالیف برداشت کر کے یوں ہی واپس ہونا پڑا۔ کاش مرزاقادیانی کا ملہم پہلے ہی سے ان کو آگاہ کر دیتا کہ میاں کا ہے کو تکلیف اٹھاتے ہو تم نے اپنے ارادوں میں نامراد ہی رہنا ہے اور یا اگر اس ملہم میں کوئی طاقت تھی تو ان کی مدد کرتا اور فوراً ان کا مطلب پورا کر دیتا۔ نہایت تعجب ہے کہ مقدمات کی اتنی لمبی دوڑ میں فریق ثانی کو ایک دفعہ بھی قادیان جانے کی ضرورت پیش نہ آئی اور مرزائی جماعت کو کم سے کم چھ سات دفعہ موضع بھین کی زیارت طوعاً وکرہاً کرنی پڑی اور ’’یاتون الیک من کل فج عمیق‘‘ کا الہام بجائے دارالامان قادیان کے الٹا موضع بھین پر صادق آتا رہا۔ یہ سن کر ناظرین کو تعجب ہوگا کہ مرزائی جماعت کے بعض صاحبان کئی رنگ بدل بدل کر بھین میں مقدمہ کا مصالحہ لینے کے لئے گئے۔ چنانچہ ایک جہلمی مرید ایک دفعہ پٹھانوں کے لباس میں بڑا بغچہ اٹھا کر ہینگ فروشی کے بہانہ سے کو بکو دربدر خراب ہوتا رہا اور کئی دنوں تک ٹکرگدائی کرتا رہا۔ لیکن خو بیچارہ وہ بھی ساحل مقصود پر نہ پہنچا اور پھر ایک دفعہ وہی شخص سارجنٹ پولیس بن کر رات کو موضع بھین میں گیا۔ لیکن آخر بمصداق ؎
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش من انداز قدت رامی شناسم
آخر تاڑنے والے تاڑ گئے کہ کشمیری بچہ سوانگ بھر رہاہے۔ کیا ایک راست باز کے متبعین کو ایسی چالبازیاں کرنا جائز ہیں۔ ہرگز نہیں۔ عبرت، عبرت، عبرت!