لیکن دل کی امنگ پوری نہ ہوئی۔ مستغاث علیہ کا پتہ نہ ملا۔ آخر اپنے ارادہ میں ناکام اور پشیمان ہوکر بے نیل ومرام برجعت قہقری اپنے دارالامان قادیان میں بصد حسرت دارالامان لوٹ آئے۔ الغرض یہ بے اصل استغاثہ دائر ہونے اور اس کی کارروائی شروع ہو جانے پر مرزائی جماعت بڑی خوشیاں منا رہی تھی اور بڑی بے صبری سے انتظار کیا جارہا تھا کہ اگر پہلے نہیں تو اختتام شہادت پر مستغاث علیہ ضرور زیر حراست ہوگا اور مرزائیوں کے دل ٹھنڈے ہوں گے۔ چنانچہ اختتام شہادت کے موقعہ پر اخبار الحکم نے صاف اعلان کر دیا تھا کہ اگر خدا نے چاہا تو ۲۴اگست کا پرچہ ایک خاص پرچہ ہوگا۔ دیکھو الحکم! لیکن ہم اس ذات پاک جل وعلاشانہ کی کمال قدرت پر قربان ہیں جس نے اس زبردست پارٹی کو باوجود ان کی انتہائی سعی وطاقت خرچ ہونے کے اپنے ارادوں میں ناکامیاب رکھ کر اپنی پاک کلام ’’وتعزّ من تشاء وتذّل من تشاء بیدک الخیر انک علیٰ کل شیٔ قدیر‘‘ کی تصدیق کرادی اور ان کے سارے دعویٰ اور پندار خاک میں ملادئیے۔ ایسی نظائر سے گورنمنٹ عالیہ کے قابل قدر قوانین کی بھی داد دینی پڑتی ہے کہ اس نے اپنی روشن ضمیری سے قانونی اختیارات کے برتنے والوں (حکام) کو مجاز کر دیا ہوا ہے کہ وہ محل کو دیکھ کر جیسا کہ موقع دیکھیں اختیار برتیں۔ ورنہ ایک شخص کے لئے کیسا آسان طریق ہے کہ کسی بے گناہ شریف شخص کے ذمے اپنی ذاتی عداوت کی وجہ سے کسی سنگین تر الزام کو تھوپ کر اس کی عزت کو غارت کر دے۔ قابل تعریف ہیں وہ حکام جو اختیارات عطا شدہ کو برمحل اور جائز طور پر استعمال میں لاتے ہیں۔
اس استغاثہ کی تائید میں جتنے گواہ گزرے ہیں وہ سارے کے سارے مرزاقادیانی کے مخلص مرید حکیم فضل دین مستغیث کے پیر بھائی تھے جو اس جہاد (مقدمہ بازی) میں حصہ لینے کی غرض سے بدوں طلبی عدالت مختلف دوردراز شہروں سے تشریف لا کر تائید استغاثہ میں گواہ بنے تھے اور یہ سن کر ان سب کو افسوس ہوا ہوگا کہ ان کی شہادت نے ان کے مرشد بھائی کو کچھ فائدہ نہ پہنچایا اور مقدمہ خارج ہوگیا۔ گواہان استغاثہ حسب ذیل تھے۔
خلیفہ نورالدین، شیخ نور احمد، کرم علی، مفتی محمد صادق، ظفر احمد، حبیب الرحمن ریاست کپورتھلہ، نیاز احمد وزیر آباد، عبداﷲ کشمیری امرتسر، شیخ رحمت اﷲ صاحب مالک بمبئے ہائوس وغیرہ احمد دین اپیل نویس گوجرانوالہ، حکیم محمد حسین لاہوری۔ ان گواہوں کی بالعموم یہی شہادت تھی کہ وہ مرزاقادیانی کی تصانیف کے خریدار ہیں اور مدت سے حکیم فضل دین کی معرفت کتابیں منگوایا کرتے ہیں اور کتاب نزول المسیح متنازعہ ان کے پاس نہیں پہنچی۔