گئے تو فریق ثانی کے وکیل نے سوال کیا۔ کیا آپ کی شان اور مرتبہ ایسا ہے جیسا تریاق القلوب میں لکھا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ خدا کے فضل سے یہی مرتبہ ہے جواس نے یہ مرتبہ مجھے عطا کیا ہے۔ تب وہ صبح کا الہام پورا ہوگیا۔ (یہ ہے حضرت اقدس کا سفید جھوٹ) آپ کے ہر دو بیانات حلفی آگے بجنسہ درج ہوں گے۔ ان میں نہ اس سوال کا ذکر ہے نہ جواب کا۔ ایسے الہامات اور ایسے اقوال کا کیا کہنا۔ پیغمبر تو جھوٹ نہیں کہا کرتے۔ مرزاقادیانی عجیب نبی ہیں کہ تانا بانا سب جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔
نشان نمبر۱۷۰… ۲۹؍جون ۱۹۰۳ء کو رات کے وقت یہ فکر ہورہی تھی کہ مقدمات کرم دین کا کیا انجام ہوگا۔ الہام ہوا ’’ان اﷲ مع الذین اتقوا والذین ہم محسنون‘‘ نتیجہ یہ ہوا کہ مقدمات کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوا۔
نشان نمبر۱۷۹… مولوی کرم دین کے مقدمہ میں جو گورداسپور میں ہوئے کرم دین لئیم اور کذاب کے معنے سنگین بیان کرتا تھا۔ ہم خفیف ان دنوں الہام ہوا ؎
معنے دیگر نہ پسندیم ما
(تذکرہ طبع۳ ص۵۱۴)
آخر فیصلہ میں ہمارے معنے پسند کئے گئے۔
نشان نمبر۱۸۰… ایک دفعہ ۱۹۰۲ء میں الہام ہوا۔ ’’یریدون لیطفؤا نورک ویتخطفوا عرضک رانی معک ومع اہلک‘‘ ان دنوں میں نے خواب دیکھا کہ تین قوی ہیکل سنڈھے (پنجابی اردو) مجھے مارنے کو کھڑے ہیں۔ ایک نے ان سے مجھ پر حملہ کیا میں نے ہٹا دیا پھر دوسرے نے حملہ کیا وہ بھی ہاتھ سے ہٹا دیا۔ تیسرا بڑی شدت سے آیا قریب آیا تو دیوار سے لگ کر کھڑا ہوگیا اور میں اس کے ساتھ رگڑ کر (پنجابی) اس کے پاس سے گزر گیا۔ پھر القا ہوا۔ ’’رب کل شیٔ خادمک‘‘ اس سے سمجھا کہ کوئی مجھ پر مقدمہ ہوگا۔ آخر کرم دین نے جہلم میں مجھ پر مقدمہ کیا۔ مقدمہ سخت تھا۔ میرے کشف کے مطابق اس میں تین وکیل تھے۔ (اس مقدمہ میں تین نہیں بلکہ سات وکیل تھے۔ البتہ جس وقت وکلاء مرزاقادیان نے مسل دیکھی اس وقت تین تھے۔ وہی بات ذہن میں تھی۔ کشف بن گیا) آخرکار مقدمہ خارج ہوگیا۔ (غور کیجئے مقدمہ خارج ہونے کو کتنے نمبروں میں باربار بیان کر کے نشان کے نمبروں میں اضافہ کیاگیا ہے)
ناظرین غور فرمائیں! صرف دو مقدمات (جہلم وگورداسپور) کا باربار اعادہ کر کے گیارہ نشانات بنائے گئے ہیں۔ بات کا بتنگڑ اسی کو کہتے ہیں۔ بیچارے کیا کریں۔ براہین احمدیہ