۱… ایک لئیم اور بہتان والے آدمی کے متعلق۔
۲… وہ تیری آبروریزی کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔
۳… آخر وہ تیرا نشانہ بنے گا۔
۴… اس نے تین آدمی تجویز کئے جن کے ذریعہ سے تیری اہانت ہو۔
۵… کہ میں ایک محکمہ میں حاضر کیا گیا ہوں۔
۶… آخر میں نجات ہوگی یہ واقعات بالکل الگ الگ ہیں۔ اس کو پڑھ کر یقین نہیں ہوسکتا کہ کس بات کی بابت یہ بیان ہے۔ کرم دین کے نام سے بھی یقین نہیں ہوتا۔ اگر واقعات اور اخباروں کو مدنظر نہ رکھا جاوے۔ ص۱۳۰ پر استغاثہ کا پتہ لگتا ہے۔ بعد آخری سطر ص۱۲۹ کے یہ پتہ لگتا ہے کہ کرم الدین نے سلب امن کا ارادہ کیا ہے اور وکلاء کے لئے کچھ مال رکھا ہے اور کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا ہے۔ واقعات کے لحاظ سے میں یہ سمجھا کہ لئیم اور بہتان باندھنے والا خطوط اور سراج الاخبار سے پیدا ہوگا اور آبروریزی کا ارادہ انہی خطوط واخباروں کا نتیجہ ہے۔‘‘
پھر آخیر میں فرماتے ہیں۔ ’’ذلک اشارہ واحد ہے۔ اس کی تعیین خواب میں نہیں ہوئی۔ واقعات نے تصریح نہیں کی کہ کیا ہیں۔ واقعات کے قرائن نے بتلایا کہ شہاب الدین، پیر صاحب اور ایڈیٹر سراج الاخبار یہ تین مددگار ہیں۔ ارادہ توہین ہوا بذریعہ خطوط اخبار اور مقدمہ بمقام جہلم کتاب سے کسی مددگار کا پتہ نہیں چلتا۔ وکیل مددگار نہیں ہوا کرتے۔ بجواب وکیل ملزمان جس غرض کے لئے کرم دین نشانہ بنا تھا اس سے نجات نہیں ہوئی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ خطا اور مضمون کرم دین کا قرار دیا گیا۔‘‘
دیکھئے! خلیفہ اوّل نے کیسا صاف الفاظ میں ساری پیش گوئی پر پانی پھیر کر مرشد کی ساری کاروائی کو غارت کر دیا۔ آبروریزی سے مراد مقدمہ نہیںَ خطوط واخبار بیان کئے اور تین مددگار وکیل نہیں بلکہ شہاب الدین پیر صاحب اور ایڈیٹر سراج الاخبار قرار دئیے گئے اور کھلے الفاظ میں مرزاقادیانی کے قول کی تکذیب کرتے ہوئے فرمادیا کہ وکیل مددگار نہیں ہوا کرتے اور کرم دین کا نشانہ بننے سے یہ مراد نہیں کہ مقدمہ میں سزا ہوئی۔ بلکہ یہ کہ خط واخبار کا مضمون اس کے قرار دئیے گئے۔ کیا مرزائی صاحبان خلیفہ اوّل حکیم الامۃ کے اس بیان کی تصدیق کرتے ہوئے تسلیم کریںگے کہ مقدمات کے متعلق پیش گوئی ہونا اور ثلث حماۃ (تین مددگار) سے تین وکیل مراد ہونا قطعاً غلط ہے۔ نہ کوئی پیش گوئی تھی نہ کوئی الہام تھا۔ ایسے گول مول الہامات اور پیش گوئیاں تو ارڑ پوپو بھی کر دیا کرتے ہیں اور واقعات کے بعد ان کو اپنے مطلب کے مطابق کرنے کی کوشش کیا