ہیںکفار مکہ مگر یہی کہ آویں ان کے پاس فرشتے یا تمہارا رب آئے یا تمہارے رب کی بعض نشانیاں آئیں۔ جس روز تمہارے رب کا کوئی نشان آئے گا نہیں نفع دے گا کسی نفس کو اس کا ایمان جو پہلے سے ایمان نہ لایا تھا یا اپنے ایمان میں کچھ نیکی نہیں کی تھی۔}
اور سورۂ غافر میں ہے ’’فلما رأوا باسنا قالوا اٰمنا باﷲ وحدہ وکفر نا بما کنا بہ مشرکین فلم یک ینفعہم ایمانہم لما رأواباسنا (غافر:۸۵) ‘‘ {پھر جب دیکھا انہوں نے ہمارا عذاب۔ کہا ہم ایمان لائے۔ اﷲ کے ساتھ کہ وہ اکیلا ہے اور چھوڑیں جو چیزیں ہم شریک بناتے تھے اﷲکے ساتھ، پس نہ تھا کہ نفع دے ان کو ایمان ان کا جب دیکھا ہمارا عذاب۔} اسی سبب سے ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت نے جو کہا تھا کہ اے موسیٰ ہم ایمان نہ لائیں گے جب تک خدا کو ظاہر آنکھ سے نہ دیکھ لیں تو آسمان سے ایک کڑک پہنچی کہ وہ سب مر گئے۔
وجہ یہ تھی کہ خدا کو ظاہر دیکھ لینے کے بعد ایمان بالغیب نہ رہتا۔ اسی سبب سے ہے کہ مغرب کی طرف سے آفتاب طلوع ہونے کے بعد کسی کا ایمان مقبول نہیں۔ اسی طرح کفار مکہ نے جو نشانیاں حضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام سے طلب کی تھیں کہ خدا وفرشتوں کو سامنے لاؤ اور سونے کا گھر اور جنت تمہارے ساتھ ہو اور آسمان پر چڑھ جاؤ اگر یہ نشانیاں ان کی آنکھوں کے سامنے ہوتیں تو ایمان بالغیب نہ رہتا اور اگر ان کی نظروں سے غائبانہ ہوتیں تو وہ کب مانتے۔ جیسے معراج جسمانی سے کافروں نے انکار کیا۔
مرزائی… شب معراج میں بھی رسول اﷲﷺ کا آسمان پر جانا ثابت نہیں، بخاری میں واقعہ معراج کے بعد لکھا ہے کہ پھر آپ جاگ اٹھے اور آپ مسجد الحرام ہی میں تھے۔
مولانا… حضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معراج جسم مبارک کے ساتھ مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک قرآن شریف سے ثابت ہے۔ منکر اس کا کافر ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کی شروع آیت ہے۔ ’’سبحن الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الیٰ المسجد الاقصیٰ الذی بارکنا حولہ لنریہ من اٰیتنا (بنی اسرائیل:۱)‘‘ {یعنی پاک ذات ہے وہ جو لے گیا اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے طرف مسجد اقصیٰ کے وہ مسجد کہ اس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ دکھائیں اپنے بندے کو اپنی قدرت کی نشانیاں۔}
اور بیت المقدس سے عرش معلی تک تشریف لے جانا اور پروردگار عالم سے راز کی