(تحفہ غزنویہ ص۱۷، خزائن ج۱۵ ص۵۴۷، مطبوعہ اکتوبر ۱۹۰۲ئ) میں مرزاقادیانی نے تعداد مریدان ۳۰ہزار لکھی۔ (گویا صرف دو سال میں ۳۱۸ سے ۳۰ہزار تک اضافہ ہوگیا)
اور سنئے: (تحفۃ الندوہ ص۵، خزائن ج۱۹ ص۹۷، مطبوعہ ۶؍اکتوبر ۱۹۰۲ئ) میں آپ نے تعداد مریدان ایک لاکھ سے زیادہ درج فرمائی۔ (دونوں کتابیں ایک ہی سنہ ایک ہی ماہ میں طبع ہوئیں۔ کہاں ۳۰ہزار اور کہاں ایک لاکھ سے بھی زیادہ۔ کیا ان کی کوئی تطبیق ہوسکتی ہے۔ ایسا سفید جھوٹ۔ الامان!)
(مواہب الرحمن ص۱۲۰، خزائن ج۱۹ ص۳۴۰) میں بھی تعداد مریدان ایک لاکھ سے زیادہ بتائی۔ (گویا اکتوبر ۱۹۰۲ء سے جنوری ۱۹۰۳ء تک اضافہ صفر)
پھر (الحکم مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۳ئ) میں تعداد ۲لاکھ بتائی گئی۔ (صرف تین ماہ میں ایک لاکھ کا اضافہ یا للعجب!)
پھر (الحکم مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۳ئ) میں جو تقریر مرزاقادیانی کی چھپی ہے۔ اس میں تعداد مریدان تین لاکھ بتائی گئی ہے۔ طرفہ یہ کہ ۹؍جولائی ۱۹۰۴ء میں جب ہمارے مقدمہ میں آپ نے اپنا حلفی بیان دیا۔ اس میں تعداد مریدان صرف دو لاکھ بتائی۔ (عجیب بات ہے کہ ایک سال کے بعد ایک لاکھ کا خسارہ کیسے ہوگیا؟)
حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ لغو بیانی اور نرا جھوٹ تھا۔ عدالت میں جب آپ پر سوال ہوا کہ آپ کے پاس کوئی رجسٹر ہے جس سے تعداد مریدان معلوم ہو سکے۔ تو آپ نے فرمایا میرے پاس کوئی رجسٹر نہیں ہے۔ لیکن مولوی عبدالکریم نے ایک رجسٹر ۱۰؍ماہ سے بنوایا تھا۔ مگر مرزاقادیانی کے کاتب الوحی مولوی عبدالکریم کا جب ۱۶؍جولائی ۱۹۰۳ء کو بمقدمہ حکیم فضل الدین بنام مولوی کرم الدین بیان حلفی ہوا تو آپ نے مرزاقادیانی کی تکذیب کرتے ہوئے اپنے پاس ایسا رجسٹر ہونے سے انکار کر کے لکھا یا کہ: ’’مرزاقادیانی کے مریدوں کا ایک رجسٹر ہے جو اور صاحب کے سپرد ہے۔‘‘ ان بیانات سے ثابت ہوا کہ تعداد مریدان کا نہ کوئی رجسٹر ہے نہ حساب کتاب جس نے چاہا بڑ ہانک دی۔ درحقیقت تعداد مریدان لاکھوں کی نہیں صرف ہزاروں کی تعداد میں ہوتو ہو۔ باقی سب مبالغہ جھوٹ اور دروغ بافی ہے۔
۲… عمر مرزا کے متعلق غلط بیانی: عمر کے متعلق آپ کی پیش گوئی تھی۔ ’’ نحییّنک حیٰوۃ طیبۃ ثمانین حولاً اوقریباً من ذلک‘‘ (اربعین نمبر۲ ص۳۲، خزائن ج۱۷ ص۳۸۰)
پھر (حقیقت الوحی) میں ہے۔ ’’اطال اﷲ بقائک‘‘ اسی(۸۰) یا اس پر پانچ چار