پیر صاحب اس کے جواب میں خلق محمدی کا کیا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں ؎
بدم گفتی وخور سندم عفاک اﷲ نکو کردی
جواب تلخ می زیبد لب لعل شکر خارا
’’بندۂ خدا مجھے تو جو چاہو کہہ لو۔ لیکن میرے منہ سے تو اسم خدا بھی نکلتا ہے۔ اس کی نسبت ایسا لفظ استعمال کرنا اندیشہ ہے کہ قیامت میں اس کا مواخذہ نہ ہو۔‘‘ یہ ہوتے ہیں اخلاق بزرگان دین کے جس کی وجہ سے خلق خدا ان کے قدموں میں گرتی ہے۔
ایسا ہی مرزاقادیانی نے تمام ایسے مسلمانوں کو جو زمانہ نبوی اور خیرالقرون کے بعد مرزاقادیانی کے وقت تک گزر چکے ہیں۔ ان سب کو فیج اعوج (باطل گروہ) قرار دیا ہے۔
(تحفہ گولڑویہ ص۸۰، خزائن ج۱۷ ص۲۲۴)
پھر جو مسلمان آپ کے دعاوی قبول نہیں کرتے یعنی آپ کی رسالت کا کلمہ نہیں پڑھتے ان کو بلا استثناء ذریۃ البغایا (ولد الحرام) کہہ کر اپنے حسن اخلاق کا ثبوت دیتے ہیں۔ (کتاب تبلیغ ص۵۴۷،۵۴۸، خزائن ج۵ ص ایضاً) میں عبارت ذیل: ’’تلک کتب ینظر الیہا کل مسلم بعین المحبۃ والمودۃ وینتفع من معارفہا ویقبلنی ویصدق دعوتی الا ذریۃ البغایا الذین ختم اﷲ علے قلوبہم فہم لا یقبلوننی‘‘ یہ کتابیں ہیں جن کو ہر ایک مسلمان عین محبت سے دیکھتا اور ان کے معارف سے مستفید ہوتا اور مجھے قبول کرتا اور میرے دعاوی کی تصدیق کرتا ہے۔ مگر کنجریوں کی اولاد جن کے دلوں پر خدا نے مہر کر دی ہے۔ پس وہ مجھے قبول نہیں کرتے۔ جب اپنے ہم مذہب مسلمانوں سے مرزاقادیانی کا یہ سلوک ہے تو غیرمذاہب ہندو، سکھ، آریہ، عیسائی کی نسبت تو جتنا بھی برسیں تھوڑا ہے۔ (رسالہ شحنۂ حق ص۵۲، خزائن ج۲ ص۳۹۵) میں رقمطراز ہیں: ’’اے آریو! مبارک باد تمہارے پر میشر کی ساری حقیقت کھل گئی اور خود دیانند کی گواہی سے ثابت ہوگیا کہ تمہارے پرمیشر کا ایک رقیق جسم ہے جو دوسرے روحوں کی طرح زمین پر گرتا ہے اور ترکاری کی طرح کھایا جاتا ہے۔ وہ کبھی رامچند تھا۔ کبھی کرشن۱؎ اور کہیں مچھ اور ایک مرتبہ تو خوک یعنی سور بن کر اور سوروں کے موافق لطیف غذائیں کھا کر اپنے درشن کرنے والوں کو خوش کر دیا۔‘‘
۱؎ ماشاء اﷲ! آپ اس درجہ کو تو پہنچ گئے اس کے اوپر ترقی نہ کرنا۔