جرأت نہ کی۔ آپؐ کے بعد بڑے بڑے پایہ کے اولیائے کرام حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ جیسے سرخیل اولیاء کرام ہوگزرے ہیں۔ ختم نبوت کی مہر توڑنے کا کسی کو حوصلہ نہ ہوا۔ چودھویں صدی کا مغل زادہ جس کے حسب نسب کا پتہ ان کا ایک محرم راز ہموطن حسب ذیل رباعی میں دیتا ہے۔ رباعی!
یک قاطع نسل ویک مسیحائے زمان
(مرزاکمال الدین) (مرزاقادیانی)
یک مہتر لال بیگیان دوران
(مرزاامام الدین)
افتد چوگزر بقا دیانت گاہے
ایں خانہ تمام آفتاب است بدان
پہلے مبلغ اسلام کی حیثیت میں اٹھتا ہے۔ پھر ملہم ومجدد ومحدث کا خطاب حاصل کر کے جھٹ مہدی۔ پھر مثیل مسیح پھر یک لخت اصل مسیح بن جاتا ہے۔ پھر اس سے ترقی کر کے نبی ظلی بروزی کا جامہ پہنتا۔ پھر کامل ومکمل نبی ورسول بن کر دنیا کو للکارتا ہے کہ میری رسالت کا کلمہ پڑھو۔ ورنہ تم سب کافر ہو۔ کیا ادّعائے نبوت کوئی معمولی دعویٰ ہے۔ اگر سلطنت اسلام ہوتی تو پہلے ہی روز اس مدعی رسالت کا قصہ تمام کر دیا جاتا۔ کیا مسیلمہ کذاب، اسود عنسی کلمہ توحید کے قائل نہ تھے۔ کیا سجاح نے کوئی اور جرم کیا تھا کہ سب کام چھوڑ کر حضرت صدیق اکبرؓ نے ان سے جہاد کی ٹھانی اور سیف اﷲ الجبار خالد جرار کو ان مرتدین کے استیصال کے لئے روانہ کیا۔ صرف ان لوگوں کا جرم ادّعائے نبوت تھا۔ جس کی وجہ سے خلیفہ اوّل کو ان پر فوج کشی کرنی پڑی اور ان لوگوں کی طاقت مرزائے قادیان سے کم نہ تھی۔ نہ ان کی جماعت مرزاقادیانی کی جماعت سے کمزور تھی۔ مرزاقادیانی تو اپنی امت کی تعداد بلا ثبوت لکھوکھہا بیان کرتا ہے۔ (اس کے متعلق کچھ آگے ذکر آئے گا) لیکن مسیلمہ کذاب کے ماننے والوں کی تعداد فی الواقع لکھوکھہا تھی۔ چنانچہ کتب تایخ سے پتہ چلتا ہے کہ جس وقت حضرت خالدؓ سے اس کی نبرد آزمائی ہوئی اس وقت صرف مقدمتہ الجیش میں مسیلمہ کے چالیس ہزار سوار کا شمار کیاگیا تھا۔ آخر کار ان مدعیان نبوت کا خاتمہ کیا جاکر آئندہ کے لئے ادّعائے نبوت کا سدباب کر دیا گیا اور آج تک کسی بطّال کو دعویٰ نبوت کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ چونکہ یہ زمانہ کفر والحاد کا ہے۔ نبی ورسول تو کیا کوئی الوہیت کا مدعی بھی ہو، کوئی نہیں پوچھتا کہ تمہارے منہ میں کے دانت ہیں۔ اسی لئے مرزاقادیانی کو ادعائے نبوت کی جرأت ہوئی۔ چنانچہ اسی لئے مرزاقادیانی حکومت وقت کے ہمیشہ مدح وثنا میں رطب اللسان رہے۔ چنانچہ (ازالہ اوہام حصہ دوم ص۵۰۹، خزائن ج۳ ص۳۷۳) میں رقمطراز ہیں: ’’اس لئے ہر ایک سعادت مند مسلمان کو دعا کرنا چاہئے کہ انگریزوں کی فتح ہو (خواہ سلطنت اسلامی سے مقابلہ کیوں نہ ہو۔