ہیں۔ ’’اب ہم صفائی بیان کے لئے یہ لکھنا چاہتے ہیں کہ بائبل اور ہماری احادیث اور اخبار کی کتابوں کے رو سے جن نبیوں کا اسی وجود عنصری کے ساتھ آسمان پر جانا تصور کیاگیا ہے۔ وہ دو نبی ہیں۔ ایک یوحنا جن کا نام ایلیا اور ادریس بھی ہے اور دوسرے مسیح ابن مریم جن کو عیسیٰ اور یسوع بھی کہتے ہیں۔‘‘
خدا کی قدرت مقتداء کا یہ قول اور مقتدیوں کا یہ ڈول اب بتائیے آپ سچے ہیں یا مرزاصاحب کو سچا سمجھتے ہیں۔ دو میں سے ایک کو ضرور جھوٹا کہنا ہوگا۔
مرزائی… وفات مسیح پر دلیل قرآن کی دوسری آیت ہے۔ ’’وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران:۱۴۴)‘‘ اس سے ثابت ہوا کہ رسول اﷲ سے پہلے کے سب رسول وفات پاچکے۔
مولانا… خلا کا معنی موت ہرگز نہیں۔ دیکھو صراح وغیرہ کتب لغت، علاوہ اس کے اگر خلا کا معنی موت لیویں تو آیت کریمہ ’’وان من امۃ الاخلا فیہا نذیر (فاطر:۲۴)‘‘ کا معنی یہ ہوگا کہ کوئی امت ایسی نہیں کہ اس میں ایک نبی کی موت نہ ہوئی ہو۔ حالانکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر نبی نے اپنی امت میں وفات پائی ہو۔ صراح میں خلا کا معنی مضی اور ارسل لکھا ہے۔ یعنی گزرا اور بھیجا گیا اور گزرتے اور بھیجے جانے کو موت لازم نہیں۔ راستے کو بھی گذرگاہ کہتے ہیں۔ اگر تسلیم بھی کر لیں کہ ’’قد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران:۱۴۴)‘‘ کا معنی ہے کہ آپ سے پہلے رسول وفات پاچکے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زمین پر جتنے رسول تھے وہ وفات پاچکے۔ اس آیت کو حضرت عیسیٰ کی وفات سے کیا تعلق۔ وہ تو زمین پر موجود نہ تھے۔
مرزائی… آپ لوگ حیات عیسیٰ کے کس طرح معتقد ہیں۔ کیا اتنی مدت تک کوئی شخص زندہ رہ سکتا ہے۔
مولانا… ’’ان اﷲ علیٰ کل شیٔ قدیر‘‘ بے شک اﷲ ہر شیٔ پر قادر ہے۔ ایک لحظہ کی عمر اور ہزار برس عمر دینا یا زیادہ اس سے جہاں تک ہو سب اس کے نزدیک برابر ہے۔ جبرائیل ومیکائیل وحور وغلمان وغیرہا بھی تو زندہ ہیں۔ ان سب کو بھی تو خدا ہی کی دی ہوئی عمر ہے۔ حضرت خضر اور حضرت الیاس کی حیات تو احادیث سے ثابت۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ کی حیات بھی احادیث صحیحہ سے ثابت۔
مرزائی… اﷲتعالیٰ فرماتا ہے: ’’فیہا تحیون وفیہا تموتون ومنہا تخرجون (اعراف:۲۵)‘‘ زمین ہی میں زندہ رہو گے اور اسی میں مرو گے اور اسی سے اٹھائے جاؤ گے۔ اس سے ثابت ہوا کہ عیسیٰ وفات پاچکے اور آپ اس آیت کے خلاف عقیدہ رکھتے ہیں۔