مرزائی… نہیں جناب! آپ سچے دل سے وفات عیسیٰ مسیح کے معتقد ہو جائیے۔ پھر دیکھئے ہم اپنا دعویٰ دلیل سے ثابت کرتے ہیں یا نہیں۔
مولانا… میں قرآن وحدیث کے خلاف ہرگز وفات عیسیٰ علیہ السلام کا اعتقاد نہیں رکھ سکتا۔ آپ کو دعویٰ ہے تو وفات مسیح علیہ السلام کو ثابت کیجئے۔
مرزائی… دیکھئے! اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ یعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ…الخ!
مولانا… توفی کا معنی بلا قرینہ کسی جگہ موت کا نہیں آیا ہے۔ حق تعالیٰ کا قول ہے۔ ’’ثم توفی کل نفس ما کسبت وہم لا یظلمون (بقرہ:۲۸۱)‘‘ {پھر پورا دیا جائے گا ہر نفس جو اس نے کمایا ہے اور وہ ظلم نہیں کئے جائیں گے۔} یہاں توفی کا معنی موت کس طرح کہہ سکتے ہیں۔
اسی سورۂ انعام میں ہے۔ ’’وھو الذی یتوفّٰکم بالیل ویعلم ما جرحتم بالنہار ثم یبعثکم فیہ لیقضے اجل مسمے ثم الیہ مرجعکم ثم ینبئکم بما کنتم تعملون (الانعام:۶۰)‘‘ {اور اﷲ وہ ہے جو قبضہ کر لیتا ہے تم کو رات میں اور جانتا ہے جو کما چکے ہو دن میں پھر اٹھاتا ہے تم کو دن میں تاکہ پوری کی جائے مدت معیّن (یعنی موت) پھر اسی کی طرف تمہارا پلٹنا ہے۔ پھر خبر دے گا تم کو جو تم کرتے تھے۔} اگر اس آیت میں توفی بمعنی موت لیا جائے تو معنی یہ ہوگا کہ اﷲ رات کو مارتا ہے اور دن کو زندہ کر دیتا ہے اور یہ معنی صریح باطل ہے۔ اس کو سوائے مرزائیوں کے اور کون صحیح کہہ سکتا ہے۔
اور سورۂ زمر:۴۲ میںاﷲتعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اﷲ یتوفی الانفس حین موتہا والتی لم تمت فی منامہا فیمسک التی قضیٰ علیہا الموت ویرسل الاخریٰ الی اجل مسمی‘‘ {یعنی اﷲ قبضہ کر لیتا ہے جانوں کو اس کی موت کے وقت اور جو نہیں مرے ان کو نیند میں پس روک لیتا ہے ان کو جن پر موت کا حکم کیا اور چھوڑ دیتا ہے۔ قسم ثانی کو مدت معیّن تک۔}اس آیت میں لفظ توفی سے اگر موت مراد ہو تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ موت کے بعد بعض جانوں کو اﷲتعالیٰ روک لیتا ہے اور بعض جانوں کو ایک مدت معیّن تک چھوڑ دیتا ہے اور یہ معنی صریح غلط وباطل اور خلاف مشاہدہ ہے۔ کیونکہ موت کے بعد سوائے روک لینے کے چھوڑنا نہیں ہوتا۔ پس توفی کا معنی موت یہاںہرگز صحیح نہیں ہوسکتا۔ خود آپ کے مرزاصاحب نے براہین احمدیہ میں متوفیک معنی (میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا) لکھا ہے۔
(براہین احمدیہ ص۵۲۰، خزائن ج۱ ص۶۲۰)
اور بھی مرزاصاحب اپنی الہامی کتاب (توضیح المرام ص۳، خزائن ج۳ ص۵۲) میں لکھتے