اس واسطے یہ علامت بتلادی ہے کہ وہ عیسیٰ آنے والا ہے جو پہلے منصب نبوت پر رہ چکا ہے اور گو اب اس کا منصب نبوت بند ہے۔ اسی سے لوگ ہمیشہ جھوٹوں کو شناخت کرتے رہیں گے۔ خیر طوالت کے خوف سے ہم چھوڑے دیتے ہیں۔ جو کچھ ہم نے لکھا ہے وہ بہت کافی ہے۔
مرزاقادیانی اخلاق رزیلہ میں بھی گرفتار تھے
آپ کی تالیفات کو دیکھنے سے یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ آپ کا قلم فحش گوئی میں بہت تیز تھا۔ مرزاقادیانی کی تالیفات میں بیشتر حصہ دو چیزوں کا ہے۔ اپنی مسیحیت ونبوت کے فضائل اور اپنے مخالفوں کو گالیاں، عام مسلمان اور علماء کرام وبزرگان دین یہاں تک کہ انبیاء کرام اور اصحاب رسول اﷲﷺ بھی آپ کی سخت کلامی اور توہین آمیز کلمات سے نہ بچ سکے۔ عام مسلمان اور علماء وغیرہ کی نسبت تو یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ شاید سختی کی ابتداء ان کی طرف سے ہوئی ہے۔ مگر آپ نے اس کے جواب میں قلم توڑ ڈالے۔ الف سے یٰ تک کوئی سخت سے سخت کلمہ ایسا نہیں چھوڑا جو اپنے مخالفوں کو کہا نہ ہو۔ یہ باتیں کسی ایسے مدعی کی شان کے خلاف ہیں جس کا یہ دعویٰ ہو کہ میں نبی ہوں اور امام الزمان وغیرہ۔ چنانچہ خود مرزاقادیانی اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’چونکہ اماموں کو طرح طرح کے اوباشوں اور سفلوں اور بدزبان لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لئے ان میں اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قوت کا ہونا ضروری ہے تا ان میں طیش نفس اور مجنونانہ جوش پیدا نہ ہو اور لوگ ان کے فیض سے محروم نہ رہیں۔ یہ نہایت قابل شرم بات ہے کہ ایک شخص خدا کا دوست کہلا کر پھر اخلاق رزیلہ میں گرفتار ہو اور درشت بات کا ذرا بھی متحمل نہ ہوسکے اور امام زمان کہلا کر ایسی کچی طبیعت کا آدمی ہو کہ ادنیٰ بات میں منہ میں جھاگ آتا ہے۔ آنکھیں پیلی پیلی ہوتی ہیں۔ وہ کسی طرح امام زمان نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اس پر آیت ’’انک لعلے خلق عظیم‘‘ کا پورے طور پر صادق آجانا ضروری ہے۔‘‘ (ضرورۃ الامام ص۸، خزائن ج۱۳ص۴۷۸)
مرزاقادیانی خود اسی فتوے کے مستحق تھے۔ آپ میں تحمل بالکل نہ تھا۔ ذرا سی بات پر منہ میں جھاگ لے آتے تھے۔ سخت گوئی اور فحش گوئی پر اتر آتے تھے۔ ایسا شخص امام زمان کیسے ہوسکتا ہے جو شخص خود اخلاق رزیلہ میں گرفتار ہو وہ دوسروں کا رہبر کس طرح ہوسکتا ہے۔ اصحاب رسول اﷲﷺ تو مرزا قادیانی کے ہم زمانہ بھی نہ تھے۔ نہ انہوں نے آپ سے کوئی مناظرہ وغیرہ کیا۔ ان کے متعلق بھی مرزاقادیانی نے اپنی تصنیفات میں سخت گوئی اور تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ استعمال کئے۔ چنانچہ اس کا نمونہ ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں: ’’بعض نادان صحابی جن کو درائیت سے کچھ حصہ نہ تھا۔ وہ بھی اس عقیدہ سے بیخبر تھے کہ کل انبیاء فوت ہوچکے ہیں۔‘‘ (ضمیمہ براہین حصہ