اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حضور علیہ السلام کی نبوت کے سوا سب نبوتیں بند اور منسوخ ہیں۔ اب وہی اعتراض جو مسٹر صاحب موصوف ہم پر کرتے ہیں۔ مرزاقادیانی اور مسٹر صاحب دونوں پر لوٹ جاتا ہے کہ پہلے نبیوں میں نعوذ باﷲ کچھ قابلیت نہ تھی۔ جو ان کا منصب نبوت بند کیا گیا اور ان کی نبوت چھینی گئی۔ اس عبارت سے ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی نے واضح طور پر یہ بات بتلادی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا منصب نبوت تو پہلے ہی سے بند ہے۔ یہاں آنے پر ان کا منصب بند نہ ہوگا۔ بلکہ وہ تو پہلے ہی سے بند ہے۔ اب جو وہ آئیں گے۔ صرف امتی ہوںگے۔ بعض مرزائی اصحاب بوجہ ناواقفی یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حقیقی نبی امتی نہیں ہوسکتا۔ چونکہ عیسیٰ علیہ السلام حقیقی نبی ہے۔ امتی کیسے ہو جائے گا۔ یہ بھی مرزاقادیانی کی تعلیم سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ مرزاقادیانی کے نزدیک حقیقی نبی بھی امتی ہوتا ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’یوں تو قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرتﷺ کی امت میں داخل ہے۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے:’’لتومنن بہ ولتنصرنہ‘‘ پس اس طرح تمام انبیاء علیہم السلام آنحضرتﷺ کی امت ہوئے۔ ‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۳۳، خزائن ج۲۱ ص۳۰۰)
مرزاقادیانی نے ازروئے قرآن یہ فیصلہ دیا کہ تمام سابق انبیاء حضرت کے امتی ہیں۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام امتی ہوگئے تو کیا خرابی لازم آگئی۔ وہ تو پہلے ہی سے امتی ہیں۔ ان شبہات پر مرزائیت کی بنیاد ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو اپنے کو ظلی بروزی لغوی نبی کچھ بھی نہ کہیں گے۔ ختم نبوت کا اتنا ادب کریں گے۔ قادیانی نبی کی طرح نہ ہوں گے جس نے مریدوں سے خطوں میں رسول اﷲ لکھوایا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سخت سے سخت توہین کی ہے۔ لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام چونکہ بالکل امتی ہوکر آویں گے تو ختم نبوت میں کچھ فرق نہیں آئے گا۔ یہ بالکل واضح ہے۔ بعض اصحاب یہ اعتراض بھی کیا کرتے ہیں کہ حدیث میں آنے والے عیسیٰ علیہ السلام کے لئے نبی اﷲ کا لفظ بھی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ منصب نبوت بھی ہوگا۔ یہ بھی غلط ہے اس طرح تو قرآن شریف میں موسیٰ، ہارون، ابراہیم، ادریس، اسماعیل علیہم السلام ان سب کو نبی کے لفظ سے ذکر کیا ہے تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ اس وقت بھی وہ منصب نبوت پر ہیں۔ اگر وہ منصب نبوت پر ہوں تو پھر ان کی امتیں ان کی تعلیم پر عمل کریں اور حضور علیہ السلام کا فتہ للناس نہیں رہتے۔ قرآن شریف میں نبی کے لفظ سے ان کے سابق منصب کی طرف اشارہ ہے۔ اسی طرح حدیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے نبی اﷲ سے سابق منصب کی طرف اشارہ ہے اور یہ ایک نشان ہے چونکہ جھوٹے لوگ بھی دعویٰ کرتے رہیں گے۔