M!
’’نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۰ اما بعد!‘‘
عاجز محمد عبدالرزاق بہاری ساکن موضع لکھی چک، اہل حق کی خدمات میں عرض کرتا ہے۔ یہاں کلکتہ میں ایک پنجابی مرزائی اپنی انجمن کے اشتہار وماہواری رسالے تاجروں کو دکھا دکھا کر مرزائی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ تاجروں سے وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ اگر تم کو میری تقریر اور اس رسالے واشتہارات کے مضمون میں کچھ شک ہو تو ہم کو اپنے عالم کے پاس لے چلو۔ ہم اپنی اس تحریر وتقریر کو سچا ثابت کر دیں اور تمہارے عالم سے اقرار کرالیں تو تم مرزاصاحب کی نبوت کے معتقد اور جماعت احمدیہ میں شریک ہو جانا۔ چنانچہ ۲؍رمضان المبارک ۱۳۴۶ھ بروز جمعہ دو شخص دکاندار اس مرزائی کو شاتھ لے کر مولانا عبدالواحد خان صاحب رام پوری مقیم کلکتہ کے پاس آئے۔ اس وقت جانبین سے جو سوال وجواب ہوا اس کو یہ عاجز قلم بند کر کے عوام اہل حق کی ہدایت کے واسطے شائع کرتا ہے۔
مولانا… آپ مرزاصاحب کو کیا سمجھتے ہیں؟
مرزائی… نبی سمجھتا ہوں۔
مولانا… اس دعویٰ پر آپ کیا دلیل پیش کرتے ہیں؟
مرزائی… پہلے حیات وممات ابن مریم میں گفتگو ہو جائے بعد ازاں مرزاصاحب کی نبوت میں
ثابت کروں گا۔
مولانا… ہم کو حیات وممات مسیح علیہ السلام سے اس وقت کوئی غرض نہیں۔ آپ مرزاصاحب کی نبوت کے مدعی ہیں اپنے دعویٰ کو دلیل سے ثابت کیجئے یا صاف اقرار کیجئے کہ مرزاصاحب کی نبوت پر کوئی دلیل نہیں۔
مرزائی… حیات وممات ابن مریم کا مسئلہ طے ہونے پر ہم اپنی دلیل پیش کریں گے۔
مولانا… یہ مسئلہ حیات وممات کا علیحدہ اور مرزاصاحب کی نبی یا غیرنبی ہونے کا مسئلہ علیحدہ۔ آپ اپنے دعویٰ کو دلیل سے ثابت کیجئے۔
مرزائی… جی نہیں۔ جب تک یہ مسئلہ حیات وممات کا طے نہیں ہوگا ہم اپنا دعویٰ ثابت نہیں کر سکتے۔
مولانا… اچھا آپ کی خاطر سے پانچ منٹ کے واسطے وفات عیسیٰ علیہ السلام کا اقرار ہم کرتے ہیں۔