بھی اسلام میں فتنہ ڈالتا ہے اور سنو مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’اگر تمام خلفاء کو نبی کے نام سے پکارا جاتا تو امر ختم نبوت مشتبہ ہوجاتا۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین ص۴۳، خزائن ج۲۰ ص۴۵)
دیکھئے! جب خداتعالیٰ نے یہ رعایت کی کہ اور خلفاء کو مجازاً بھی نبی نہیں کہا۔ کیونکہ امر ختم نبوت مشتبہ ہوتا تھا۔ لہٰذا بطور مجاز کے بھی ان الفاظ کے استعمال کو ناجائز قرار دیا جاوے گا۔ کیونکہ اسلام کا زبردست اصول ختم نبوت ٹوٹتا ہے اور نبی کریمﷺ کی کسر شان بھی ہوتی ہے اور خاتم النّبیین لا نبی بعدی کے بھی خلاف ہے۔ یہاں مرزائی یہ سوال بہت زور سے کرتے ہیں کہ جب خاتم النّبیین اور لانبی بعدی ہے تو حضرت عیسیٰ کیسے آسکتے ہیں۔ تب بھی اصول ختم نبوت نوٹ جاتا ہے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ جناب حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب آویں گے تو صرف محدث اور امام ہوں گے اور منصب نبوت پر نہ آئیں گے اور وہ نبی نہ کہلائیں گے۔ اس پر مسٹر محمد علی صاحب امیر جماعت لاہور یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا منصب نبوت ورسالت کیوں چھینا گیا۔ جیسا کہ اس عبارت سے ثابت ہے فرماتے ہیں: ’’اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں تو لازماً منصب رسالت کے ساتھ آنے چاہئیں۔ کیونکہ ایک رسول کا منصب رسالت کسی صورت میں چھینا نہیں جاسکتا … ماننا پڑے گا کہ حضرت عیسیٰ کی نعوذ باﷲ کسی نا قابلیت کی وجہ سے ان کا یہ منصب چھینا گیا۔‘‘ (تفسیر بیان القرآن پارہ پنجم ص۵۲۶،۵۲۷)
یہ خیال اکثر مرزا قادیانی کی کتابوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ بلکہ تمام مرزائیت کا اسی پر دارو مدار ہے۔ اگر مرزائی صاحبان ذرا غور وفکر سے کام لیتے تو یہ سوال پیدا ہی نہ ہوتا۔ بات یہ ہے کہ جب جناب رسول اﷲﷺ مبعوث ہوئے تو انبیاء سابقین کی نبوتیں بند ہوچکیں۔ جیسا کہ قرآن شریف کے بعد پہلی کتابیں بند ہوگئیں۔ حالانکہ توریت وغیرہ ابھی تک دنیا میں موجود ہے۔ مگر اس پر عمل جائز نہیں۔ قرآن کے بعد وہ منسوخ ہوگئیں۔ اسی طرح حضور علیہ السلام کے مبعوث ہونے کے بعد تمام انبیاء سابقین کا خواہ کوئی زندہ ہو یا مردہ ہو۔ منصب رسالت بند اور منسوخ ہوچکا۔ جیسا کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر۱؎ موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو میری پیروی کرتے۔ گویا حضور علیہ السلام کے علم میں موسیٰ علیہ السلام کا منصب رسالت بند ہوچکا تھا۔ ورنہ ایسا نہ فرماتے اور مرزاقادیانی کی عبارت بھی ہماری تائید کرتی ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ ص۲۵، خزائن ج۲۰ ص۴۱۲)
۱؎ حضور علیہ السلام نے فیصلہ کر دیا کہ اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ بھی ہوتے۔ تب بھی وہ اپنے منصب کی پیروی نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ ان کا منصب بند ہوچکا۔ بلکہ میرے منصب کی پیروی کرتے۔