اتباع کی مہر سے ہوگی… اور اگر آئندہ نبوت کو باطل قرار دو گے تو پھر یہ امت خیرالامت نہ رہے گی۔ بلکہ کالانعام ہوگی۔‘‘ (اخبار بدر نمبر۱۳ ج۲، مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۳ئ)
اور ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں: ’’مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۳۲۴، خزائن ج۲۳ ص۳۴۰)
دیکھئے مرزاقادیانی بھی یہ ہی فرماتے ہیں: ’’کہ نبوت تو اب بھی ہے مگر آنحضرتﷺ کی اتباع کی مہر یا کامل پیروی سے ملتی ہے۔ بقول مسٹر صاحب موصوف یہ ایچا پیچیاں ہیں۔‘‘
اور جناب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ حدیث میں آیا ہے۔ مبشرات جزو نبوت ہے اور جزو کل میں داخل ہوتا ہے۔ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ جزو کل میں داخل ہو۔ لیکن آپ تو جزو پر کل کا اطلاق کرتے ہیں اور یہ جائز نہیں۔ نہ جزو کل کے برابر ہوتا ہے۔ نہ جزو کل کا عین ہوتا ہے۔ نہ جزو پر کل کا اطلاق ہوتا ہے۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ مبشرات پر نبوت کا اطلاق درست نہیں۔ اگر کوئی شخص رؤیا صالحہ کا پانے والا ہے تو اس کو نبی کہنا جائز نہیں۔ کیونکہ جزو پانے والے کوکل کا پانے والا قرار دے رہے ہو اور جزو کو کل کے برابر قرار دے رہے ہو۔ مرزاقادیانی نے یہ غلطی کی ہے۔ چنانچہ مسٹر محمد علی صاحب امیرجماعت کا قول ہماری تائید کرتا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’کیونکہ آج تک کل دنیا نے اس کو اصول متعارفہ کے طور پر مانا ہے کہ جزو کل کا عین نہیں ہوتا نہ جزو کل کے برابر ہوتا ہے۔‘‘ (النبوۃ فی الاسلام ص۱۶۰)
اور آپ کی یہ مثال صحیح نہیں کہ ایک قطرہ پانی پر بھی پانی کا اطلاق ہوسکتا ہے اور سمندر پر بھی پانی کا اطلاق ہوتا ہے۔ کیونکہ جیسے سمندر کے پانی میں کل اجزاء مائیہ موجود ہیں۔ ویسے ہی پانی کے قطرہ میں بھی کل اجزاء مائیہ موجود ہیں۔ لہٰذا قطرہ کو پانی کہہ سکتے ہیں۔ مگر مبشرات کو نبوت نہیں کہہ سکتے۔ جیسے نمک کو پلاؤ نہیں کہہ سکتے۔ رسی کو چارپائی نہیں کہہ سکتے۔ بٹن کو کوٹ نہیں کہہ سکتے۔ کسی ایک پرزہ کو موٹر نہیں کہہ سکتے۔ ایک اینٹ کو مکان نہیں کہہ سکتے۔ میخ کو کواڑ نہیں کہہ سکتے۔ بعض لاہوری کہہ دیا کرتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے حقیقتاً مبشرات پانے والے پر نبی کا لفظ نہیں بولا۔ بلکہ مجازاً بولا ہے جیسے انسان کو شیر کہہ دیتے ہیں۔ یہ ہی تو غلطی ہے یہاں مجازاً بولنا بھی ناجائز ہے۔ کیونکہ امر ختم نبوت مشتبہ ہوتا ہے اور اسلام میں فتنہ پڑتا ہے۔ چنانچہ مرزاقاداینی فرماتے ہیں: ’’سوچونکہ ایسے لفظوں سے جو محض استعارہ کے رنگ میں ہیں۔ اسلام میں فتنہ پڑتا ہے۔‘‘
(الحکم نمبر۲۹ ج۳، مورخہ ۱۷؍اگست ۱۸۹۹ئ)
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ رسول اور نبی کا لفظ مجاز اور استعارہ کے طور پر استعمال کرنا