پیش گوئیاں ہوتی ہیں کہ وہ درست نکلیں یا نہیں۔ چنانچہ خود مرزاقادیانی نے لکھا ہے: ’’بدخیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق وکذب جانچنے کے لئے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان (معیار آزمائش) نہیں ہوسکتا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۸، خزائن ج۵ ص۲۸۸)
ایک اور جگہ لکھتا ہے: ’’کسی انسان کا اپنی پیش گوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی ہے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۰۷، خزائن ج۱۵ ص۳۸۲)
اب ہمیں چاہئے کہ ہم دیگر کسی موضوع پر گفتگو کے بجائے خود مرزاقادیانی کے بتائے ہوئے معیار امتحان یعنی پیش گوئیوں کے وقوع کی جانچ کر کے ہی مرزاقادیانی کے صدق وکذب کا فیصلہ کریں۔ چنانچہ جب ہم مرزا کی پیش گوئیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس کی سبھی ادّعائی پیش گوئیاں وقوع سے محروم رہیں اور عجیب بات ہے کہ جس پیش گوئی پر زیادہ زور صرف کیا وہی پوری نہ ہو کے رہی۔ مثلاً چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:
۱… مرزاقادیانی نے اپنی موت کے متعلق پیش گوئی کی کہ ’’ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں۔‘‘ (تذکرہ ص۵۹۱، طبع سوم)
حالانکہ موت تو کجا کبھی مرزا کو ان مقامات مقدسہ کی زندگی میں زیارت بھی نہ ہوسکی اور اس کی موت کا واقعہ لاہور میں پیش آیا۔
۲… ایک نوجوان لڑکی محمدی بیگم سے نکاح کی پیش گوئی کی اور جب اس کے والد نے لڑکی کا نکاح دوسرے شخص سے کر دیا تو مرزاقادیانی نے بڑے زور وشور سے اشتہارات شائع کرائے کہ نکاح سے ڈھائی سال کے اندر اندر اس لڑکی کا باپ اور شوہر مر جائیں گے اور یہ کہ وہ لڑکی ضرور میرے نکاح میں آئے گی اور جوش میں کہا کہ: ’’من ایں را برائے صدق خود یا کذب خود معیارمی گردانم۔‘‘ (انجام آتھم ص۲۲۳، خزائن ج۱۱ ص۲۲۳)
ترجمہ: میں اس (پیش گوئی) کو اپنے صدق وکذب کے لئے معیار قرار دیتا ہوں۔
مگر خدا کا کرنا کہ مرزاقادیانی دنیا سے محمدی بیگم سے نکاح کی حسرت لئے چلا گیا۔ مگر یہ پیش گوئی پوری نہ ہوسکی اور وہ خود اپنے معیار کے مطابق کاذب قرار پایا اور محمدی بیگم کا شوہر ڈھائی سال میں تو کیا مرتا مرزاقادیانی کے مرنے کے بھی ۴۰سال بعد زندہ رہا اور ۱۹۴۸ء میں وفات پائی۔