ایک طرف تو یہ دعویٰ کہ میں نے کسی گالی دینے والے کو جواب نہیں دیا، دوسری طرف مرزا کی کتابیں اپنے مخالفین کو مغلظات قسم کی گالیاں دینے سے بھری پڑی ہیں۔ یہ گالیاں ایسی گندی اور رکیک ہیں کہ شریف آدمی انہیں زبان پر لانا بھی گوارا نہیں کر سکتا۔
مرزا کی گالیاں
مثلاً ایک جگہ اپنے دشمنوں کو اور ان کی بیویوں کو اس طرح کو ستا ہے: ’’ان العداء صاروا خنازیر الفلا ونساؤہم من دونہن الاکلب‘‘ (نجم الہدیٰ ص۱۰، خزائن ج۱۴ ص۵۳)
ترجمہ: ہمارے دشمن جنگلوں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں۔
مشہور عالم مولانا عبدالحق غزنوی پر اس طرح گالیوں کے پھول برستے ہیں: ’’مگر تم نے حق کو چھپانے کے لئے جھوٹ کا گوہ کھایا… پس اے بدذات، خبیث، دشمن اﷲ رسول کے…‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۰، خزائن ج۱۱ ص۳۳۴)
مولانا سعد اﷲ صاحب کو تو مرزا نے ایسی کھل کے گالیاں دی ہیں کہ گالیوں کے موجد کی روح بھی شاید شرما گئی ہوگی۔ملاحظہ کریں مرزاکہتا ہے:
’’ومن اللئام اریٰ رجیلاً فاسقا
غولاً لعیناً نطفۃ السفہائ‘‘
ترجمہ: اور کمینوں میں سے ایک حقیر فاسق مرد کو دیکھتا ہوں جو شیطان، ملعون، بے وقوفوں کا نطفہ ہے۔
’’شکس، خبیث، مفسد و مزور
نحس یسمی السعد فی الجہلائ‘‘
ترجمہ: بدگو ہے، خبیث فتنہ پردارز اور ملمع ساز ہے، منحوس ہے جس کا نام جاہلوں نے سعد اﷲ رکھا ہے۔ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۴، خزائن ج۲۲ ص۴۴۵)
یہ تو صرف چند نمونے ہیں ورنہ ایسی بدزبانیاں مرزاقادیانی کی تحریروںمیں جابجا نظر آتی ہیں اور اس کی ہر بدزبانی اس کے اس دعویٰ کو جھوٹا قرار دیتی ہے کہ اس نے اپنے مخالفوں کو جواب نہیں دیا۔
جھوٹی پیش گوئیاں
سامعین عالی مقام! پھر کسی مدعیٔ نبوت کی سچائی جاننے کے لئے ایک بڑا معیار اس کی