عکرمۃ عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ وما جعلنا الرؤیا التی اریناک الا فتنۃ للناس قال ہی رؤیا عین اریہا رسول اﷲﷺ لیلۃ اسرے بہ الیٰ بیت المقدس ولیست برویا منام (بخاری مع فتح الباری ص۴۶۲، درمنثور ج۵ ص۲۷۰)‘‘ یعنی حبرالامۃ حضرت ابن عباسؓ آیت ’’وما جعلنا الرؤیا التی‘‘ یعنی یہ جو کچھ ہم نے تم کو اے محمدﷺ دکھایا ہے۔ سو اسی واسطے تھا تاکہ لوگوں کی آزمائش ہو جائے۔ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ رؤیا سے مراد اس جگہ رویت چشم ہے خواب میں دیکھنا مراد نہیں۔ یعنی شب معراج جو رسول اﷲﷺ کو بیت المقدس اور آسمان وغیرہ میں نشانیاں دکھلائی گئیں تھیں۔ وہ خواب کی حالت نہ تھی بلکہ آپ نے بچشم خود یہ تمام واقعات دیکھیتھے اب غور کیجئے کہ باوجودیکہ رؤیا خواب کے معنوں میں کثیر الاستعمال ہے۔ لیکن رئیس المفسرین حضرت ابن عباسؓ کا رؤیا کی تفسیر رویت چشم سے کرنا دلیل ہے۔ اس بات پر کہ صاحب موصوف (ابن عباسؓ) نہ صرف معراج جسمانی کے قائل تھے بلکہ معراج جسمانی کے وقوع وصحت کا انہیں پورے طور سے یقین کامل تھا۔ اگر حضرت ابن عباسؓ کو وقوع معراج جسمانی میں ذرا بھی تأمل ہوتا تو خدا کی قسم قرآن مجید کی آیت کی تفسیر اس جزم کے ساتھ کبھی بھی نہ کرتے ’’کیف یظن بہ وقد قال لہ رسول اﷲﷺ اللہم علمہ الحکمۃ وتاویل الکتاب‘‘
چنانچہ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: ’’ان مراد ابن عباسؓ ہنا بزاویۃ العین المذکورۃ جمیع ما ذکرہﷺ فی تلک اللیلۃ من الاشیاء التی تقدم ذکرہا (فتح الباری ص۴۶۲ پ۱۵)‘‘ یعنی ابن عباسؓ کی مراد لفظ رؤیا کی تفسیر عین سے کرنے کی یہ ہے کہ آپ نے جن اشیاء مذکورہ (براق نماز کے فرض ہونے کی کیفیت کفار مکہ کے قافلہ سے ملاقات کرنا وغیرہ) کا ذکر صحابہ کرامؓ کے سامنے کیا تھا وہ رویت عینی (بچشم خود) دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ رسول اﷲﷺ نے جن چیزوں کا ذکر صحابہ کرامؓ کے سامنے کیا تھا وہ چیزیں آپ نے خواب کی حالت میں نہ دیکھی تھیں بلکہ ان کا تعلق بیداری کی حالت میں تھا۔ چنانچہ ذیل کی روایت سے بھی اس کی تصریح ہوتی ہے۔
۴… ’’واخرج الطبرانی وابن مردویہ عن ام ہانیؓ قالت بات رسول اﷲﷺ لیلۃ اسرے بہ فی بیتی ففقدتہ من اللیل فامتنع عنی النوم مخافۃ ان عکرمۃ عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ وما جعلنا الرؤیا التی اریناک الا فتنۃ للناس قال ہی رؤیا عین اریہا رسول اﷲﷺ لیلۃ اسرے بہ الیٰ بیت المقدس ولیست برویا منام (بخاری مع فتح الباری ص۴۶۲، درمنثور ج۵ ص۲۷۰)‘‘ یعنی حبرالامۃ حضرت ابن عباسؓ آیت ’’وما جعلنا الرؤیا التی‘‘ یعنی یہ جو کچھ ہم نے تم کو اے محمدﷺ دکھایا ہے۔ سو اسی واسطے تھا تاکہ لوگوں کی آزمائش ہو جائے۔ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ رؤیا سے مراد اس جگہ رویت چشم ہے خواب میں دیکھنا مراد نہیں۔ یعنی شب معراج جو رسول اﷲﷺ کو بیت المقدس اور آسمان وغیرہ میں نشانیاں دکھلائی گئیں تھیں۔ وہ خواب کی حالت نہ تھی بلکہ آپ نے بچشم خود یہ تمام واقعات دیکھیتھے اب غور کیجئے کہ باوجودیکہ رؤیا خواب کے معنوں میں کثیر الاستعمال ہے۔ لیکن رئیس المفسرین حضرت ابن عباسؓ کا رؤیا کی تفسیر رویت چشم سے کرنا دلیل ہے۔ اس بات پر کہ صاحب موصوف (ابن عباسؓ) نہ صرف معراج جسمانی کے قائل تھے بلکہ معراج جسمانی کے وقوع وصحت کا انہیں پورے طور سے یقین کامل تھا۔ اگر حضرت ابن عباسؓ کو وقوع معراج جسمانی میں ذرا بھی تأمل ہوتا تو خدا کی قسم قرآن مجید کی آیت کی تفسیر اس جزم کے ساتھ کبھی بھی نہ کرتے ’’کیف یظن بہ وقد قال لہ رسول اﷲﷺ اللہم علمہ الحکمۃ وتاویل الکتاب‘‘
چنانچہ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: ’’ان مراد ابن عباسؓ ہنا بزاویۃ العین المذکورۃ جمیع ما ذکرہﷺ فی تلک اللیلۃ من الاشیاء التی تقدم ذکرہا (فتح الباری ص۴۶۲ پ۱۵)‘‘ یعنی ابن عباسؓ کی مراد لفظ رؤیا کی تفسیر عین سے کرنے کی یہ ہے کہ آپ نے جن اشیاء مذکورہ (براق نماز کے فرض ہونے کی کیفیت کفار مکہ کے قافلہ سے ملاقات کرنا وغیرہ) کا ذکر صحابہ کرامؓ کے سامنے کیا تھا وہ رویت عینی (بچشم خود) دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ رسول اﷲﷺ نے جن چیزوں کا ذکر صحابہ کرامؓ کے سامنے کیا تھا وہ چیزیں آپ نے خواب کی حالت میں نہ دیکھی تھیں بلکہ ان کا تعلق بیداری کی حالت میں تھا۔ چنانچہ ذیل کی روایت سے بھی اس کی تصریح ہوتی ہے۔
۴… ’’واخرج الطبرانی وابن مردویہ عن ام ہانیؓ قالت بات رسول اﷲﷺ لیلۃ اسرے بہ فی بیتی ففقدتہ من اللیل فامتنع عنی النوم مخافۃ ان