پہنچ جائیں گے (قافلہ کی علامت یہ ہے) کہ ان کے آگے ایک سفید اونٹ ہے جس کی پیٹھ پر دو کالے کچاوے تھے اور اس پر ایک سن رسیدہ شخص سیاہ رنگ سوار ہے (جو دن رسول اﷲﷺ کے قافلہ کے آنے کا مقرر کیا تھا) جب وہ دن آیا تو لوگ اس قافلہ کو دیکھنے نکلے۔ چنانچہ وہ قافلہ دوپہر کے قریب آپہنچا اور جس طرح رسول اﷲﷺ نے قافلہ کی علامت بتلائی تھی اسی طرح قافلہ کے آگے وہ سفید اونٹ تھا اور ویسا ہی سن رسیدہ شخص۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرتﷺ نے اشارۃ بیان فرمایا صدیق اکبرؓ نے رسالت کی شہادت دے کر اس کی تصدیق کر لی۔ کیونکہ جب رسالت کا اقرار کر لیا جائے تو اس کے لوازمات اپنے آپ مان لئے جاتے ہیں۔
دیکھئے لفظ: ’’انصرفت ثم اتیت قبل الصبح بمکۃ‘‘ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اﷲﷺ اس رات مکہ میں تشریف نہیں رکھتے تھے اور اس پر قوی دلیل یہ ہے کہ ابوبکرؓ نے آپ کو اس رات تلاش کیا لیکن آپ نہ ملے اگر رسول اﷲﷺ مکہ ہی میں ہوتے تو فرمادیتے کہ اے ابوبکرؓ میں گیا ہی کہاں تھا میں تومکہ ہی میں تھا لیکن ابوبکر کے سوال پر آپ کا یہ فرمانا کہ میں بیت المقدس گیا تھا بآواز بلند پکار رہا ہے کہ نبی کریمﷺ مع جسم تشریف لے گئے تھے۔
علاوہ ازیں آپ کا ایسی جلدی کی حالت میں قافلے والوں پر سلام کرنا اور ان کا آپ کو جواب دینا اسی غرض سے تھا تاکہ معراج کی خبر سن کر ان کے دل معراج کی صحت کی گواہی دیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنے کانوں سے رسول اﷲﷺ کی آواز سن لی تھی۔
جب منکروں نے رسول اﷲﷺ کے بیت المقدس جانے کے دعوے پر یقین ہو گیا کہ محمد (روحی فداہ) کا واقعی یہی دعویٰ ہے کہ وہ بیت المقدس گئے تھے؟ اس پر آپ کا یہ فرمانا کہ لو مجھ سے بیت المقدس کی علامتیں دریافت کر لو میں تمہیں بتاتا یہ لفظ علانیہ طور پر ثابت کر رہا ہے کہ آپ نے ان کے قول کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے مقامی علامتیں بتانے کا بھی عزم کر لیا تھا اور یہ جب ہی ہوتا کہ جب کوئی شخص آنکھ سے تمام واقعات دیکھ لے اور معلوم کرے۔ ورنہ خواب دیکھنے والے کو نہ تو دعویٰ تام ہی ہوتا ہے اور نہ وہ مقامی علامتیں بتانے پر قادر۔ چنانچہ ایک اور واقعہ میں اس سے بھی زیادہ تصریح کی گئی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ آیت ’’وما جعلنا الرؤیا التی‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’حدثنا الحمیدے قال حدثنا سفیٰن قال حدثنا عمر وعن