یکون عرض لہ بعض قریش فقال رسول اﷲﷺ (الی ان قال) وانا ارید ان اخرج الی قریش فاخبرہم مارأیت فاخذت بثوبہ فقلت انی اذکرک اﷲ انک تأتی قوما یکذبونک وینکرون مقالتک فاخاف ان یسطوا بک قالت فضرب ثوبہ من یدی ثم خرج الیہم فاتاہم وہم جلوس فاخبرہم (درمنثور ج۵ ص۱۸۱)‘‘ یعنی ام ہانیؓ نے کہا کہ رسول اﷲﷺ کو جس رات معراج ہوئی آپ اس رات میرے ہی گھر تشریف رکھتے تھے۔ (عشاء کی نماز تو پڑھ کر آپ سو گئے لیکن رات کے کچھ حصہ گزرنے پر جب میری آنکھ کھلی تو) میں نے رسول اﷲﷺ کو آپ کے بستر پر نہ پایا۔ مجھے مارے خوف کے باقی رات نیند ہی نہ آئی کہ مبادا قریش مکہ آپ کے ساتھ کسی بدسلوکی سے پیش نہ آئے ہوں (میں اسی خیال میں تھی کہ رسول اﷲﷺ سے ملاقات ہونے پر میں نے کہا کہ یا رسول اﷲ آپ کہاں تشریف لے گئے تھے؟) میرے دل میں تو یہ یہ خیالات آرہے تھے آپ نے اپنے جانے کا تمام واقعہ بیان کر کے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے رات دیکھا ہے وہ سب قریش سے بیان کردوں۔ (ام ہانیؓ کہتی ہیں) کہ میں نے حضرت کا دامن پکڑ کر کہا کہ خدا کے لئے آپ یہ کیا غضب کرتے ہیں۔ وہ تو پہلے ہی سے آپ کی تکذیب اور آپ کی باتوں کے انکار پر تلے بیٹھے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ واقعہ سن کر آپ پر حملہ نہ کر بیٹھیں رسول اﷲﷺ نے جھٹکا مار کر دامن چھڑا لیا اور کفار کے مجمع میں جاکر تمام واقعہ بیان فرمادیا۔
ناظرین! غور کیجئے کہ اگر یہ واقعہ روحانی یا منامی حیثیت اپنے اندر رکھتا تو ام ہانیؓ کا رسول اﷲﷺ کو واقعہ بیان کرنے سے روکنا اور آپ کا اس (واقعہ) کے اظہار اور بیان پر اصرار کرنا ایک عبث اور بیہودہ قرار پاتا ہے۔ ’’فہذا لا یلیق للمؤمن الکامل فکیف یظن بالنبی المرشدا لعادل‘‘
علاوہ بریں حضرت ام ہانیؓ کا رسول اﷲﷺ کو آپ کی جگہ میں باوجود تلاش کرنے کے نہ ملنا صریح دلیل ہے اس بات پر، کہ آپ اس رات ملاء اعلیٰ من انوار قدس الٰہیہ کے نظاروں سے متاثر ہورہے تھے اور اگر تھوڑی دیر کے لئے تسلیم بھی کر لیا جائے کہ پیغمبر خدﷺ کا دامن معراج جسمانی سے خالی۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ اس معراج روحانی کے وقوع سے صحابہ کرام (رضوان اﷲ اجمعین) کی ایک جماعت کیوں مرتد ہوئی۔ کیا روحانی یا منامی واقعہ اپنے اندر اتنی ہی اہمیت