بیت المقدس، لوگوں نے کہا کیا ایلیا؟ آپ نے فرمایا ہاں! کہا پھر آپ صبح کے وقت ہم لوگوں میں موجود ہوگئے! آپ نے فرمایا ہاں! یہ سنتے ہی لوگوں کی یہ کیفیت ہوگئی کہ کوئی تو تالیاں بجانے لگا اور کوئی تعجب سے سر پر ہاتھ رکھنے لگا۔ پھر انہوں نے کہا آپ مسجد کا حال بیان کر سکتے ہیں۔ حالانکہ ان میں وہ لوگ بھی موجود تھے جو بیت المقدس کا سفر کر چکے تھے۔ رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں کہ میں مسجد کا حال ان کے سامنے بیان کرنے لگا۔ یہاں تک کہ بعض علامتوں میں کچھ اشتباہ سا ہوگیا۔ معاً میرے سامنے مسجد ورے دار عقیل رکھی گئی۔ جس کو میں دیکھ دیکھ کر بیان کرنے لگا۔ ان لوگوں نے جب پوری علامتیں سن لیں تو بے ساختہ پکار اٹھے کہ واﷲ علامتیں تو سب برابر بتلائیں۔ انتہی! اس روایت میں چند امور قابل نوٹ ہیں۔
۱… ظاہر ہے کہ یہ حدیث جب آٹھ کتابوں میں ترجمان القرآن حضرت ابن عباسؓ سے بسند صحیح مروی ہو تو کس پایہ اور اعتبار کی ہوگی۔
۲… رسول اکرمﷺ کا یہ یقین کرنا کہ لوگ اس واقعہ کی تکذیب کریں گے، دلیل ہے۔ اس بات پر کہ یہ واقعہ خواب کا نہ تھا۔ کیونکہ خواب میں اکثر عجیب وغریب، خلاف عقل واقعات دیکھے جاتے ہیں۔ مگر کسی کو یہ فکر نہیں ہوتا کہ لوگ اس خواب پر میری تکذیب کریں گے۔
۳… خاتم النّبیین رسول اﷲﷺ کا اس واقعہ سے شاداں وفرحاں نہ ہونا بلکہ نہایت غمگین رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپﷺ کا گمان غالب تھا۔ لوگ اس خلاف عقل واقعہ کی ضرور تکذیب کریں گے۔ اگر صرف یہ خواب ہی تھا تو غمگین ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ خواب میں تو اس سے بھی کئی حصہ زیادہ انسان خلاف عقل واقعات دیکھتا ہے۔ مگر کوئی بھی بمجرد ان کے دیکھنے کے غمگین اور حزین نہیں ہوتا۔
۴… ایسے موقع پر تالیاں بجانا اپنی کامیابی اور خصم کے ذلیل ہونے پر دلیل ہے کہ مشرکین مکہ اپنی کامیابی اسی میں سمجھتے تھے کہ الصادق المصدوق کو اس واقعہ میں جھوٹا ثابت کر دکھائیں۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ خلاف عقل خواب سننے سے طبیعتوں میں جوش ہرگز پیدا نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ ان خلاف عقل خوابوں پر اضغاث احلام (یعنی پریشان خواب) کا فتویٰ لگا سکتے ہیں۔ حالانکہ ایسا کسی حدیث سے ثابت نہیں کہ مشرکین نے اس واقعہ کو سن کر پریشان خواب کہا ہو۔