بہ عدواﷲ ابوجہل فجاء حتی جلس الیہ فقال لہ کالمستہزی ہل کان من شیٔ قال نعم قال وما ہو قال انی اسرے بی الیلۃ فقال الیٰ این قال الیٰ بیت المقدس قال ثم اصبحت بین ظہر انینا قال نعم فلم یرد ان یکذبہ مخافۃ ان یجحدہ الحدیث ان دعا قومہ الیہ قال ارایت ان دعوت قومک اتحدثہم بما حدثتنی قال نعم قال ہیا یامعشر بنی کعب بن لؤی فانقضت الیہ المجالس وجاؤا حتیٰ جلسوا الیہا قال حدث قومک بماحدثتنی فقال رسول اﷲﷺ انی اسری بی اللیلۃ قالوا الیٰ این قال الیٰ بیت المقدس قالوا ایلیا قال نعم قالوا ثم اصبحت بین ظہرانینا قال نعم، قال فمن بین مصفق ومن بین واضع یدہ علیٰ راسہ معجبا قالوا: وتستطیع ان تنعت المسجد وفی القوم من قدسا فرالیہ قال رسول اﷲﷺ فذہبت انعمت فما ذلت انعت حتی التبس علی بعض النعت فجیٔ بالمسجد وانا انظر الیہ حتیٰ وضع دون دارعقیل او عقال فنعتہ وانا انظر الیہ فقال القوم اما العنعت فواﷲ لقد اصاب (درمنثور ص۱۹۵ ج۵)‘‘ یعنی ابن ابی شیبہ، احمد اور نسائی بزار اور طبرانی ابن مردویہ اور ضیاء اور ابن عساکر نے صحیح سند کے ساتھ ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ فرمایا رسول اﷲﷺ نے کہ جس رات میں بیت المقدس جاکر صبح مکہ میں واپس آگیا مجھے یقین ہوا کہ لوگ اس واضح بیان کرنے سے میری تکذیب ضرور کریں گے۔ میں اسی خیال میں ایک طرف غمگین بیٹھا تھا کہ دشمن خدا ابوجہل آکر میرے پاس بیٹھ گیا اور بطور استہزاء کے دریافت کرنے لگا کہ کیوں کیا کوئی نئی بات ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں! اس نے کہا کیا نئی بات ہے۔ فرمایا آج رات مجھے یہاں سے لے جاکر سیر کرائی گئی۔ اس نے کہا کہاں تک، آپ نے فرمایا بیت المقدس تک۔ پھر اس نے کہا کہ رات کو اتنی دور کی مسافت طے کر کے پھر صبح ہم لوگوں میں موجود ہوگئے؟ آپ نے فرمایا ہاں! ابوجہل نے جب یہ سنا تو اس خیال سے رسول اﷲﷺ کے قول کی تکذیب نہ کی کہ مبادا رسول اﷲﷺ لوگوں کے سامنے کبھی اس کا انکار نہ کر جائیں اور کہا کہ آپ یہ بات لوگوں کے سامنے بھی بیان کر سکیں گے؟ آپ نے فرمایا ضرور! ابوجہل نے یہ سنتے ہی بآواز بلند پکارا۔ اے گروہ! بنی کعب بن لؤی! لوگ یہ سنتے ہی ابوجہل کی آواز پر ٹوٹ پڑے۔ پھر ابوجہل نے رسول اﷲﷺ سے کہا جو بات آپ نے مجھ سے بیان فرمائی تھی وہ ان لوگوں سے بھی کہہ دیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ آج رات مجھے یہاں سے فرشتے لے گئے تھے۔ لوگوں نے پوچھا کہاں! آپ نے فرمایا