۵… کفار نے جب آپﷺ سے دریافت کیا کہ آپﷺ راتوں رات بیت المقدس سے واپس ہوکر صبح ہم میں موجود ہوگئے؟ تو آپ نے اس کی تصدیق کی تو اس تصدیق سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ جسم کے ساتھ حالت بیداری میں تشریف لے گئے تھے۔ ورنہ جواب میں فرمادیتے کہ یہ تو خواب تھا میں جسم کے ساتھ گیا ہی کب تھا جو مجھ سے پوچھا جاتا ہے۔ ’’ثم اصبحت بین اظہرتا‘‘ یعنی صبح یہاں ہم میں موجود ہوگئے۔
۶… مقامی علامتیں بطور امتحان کے دریافت کرنا خواب میں نہیں ہوا کرتا۔ اس لئے کہ خواب بیان کرنے والے کا یہ دعویٰ ہی نہیں ہوتا کہ جو میں نے دیکھا ہے وہ واقع کے مطابق ہے۔ اسی وجہ سے تو اس میں تعبیر کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر رسول اﷲﷺ کی طرف سے کفار کے یہ ذہن نشین کرایا جاتا کہ یہ واقعہ خواب میں دیکھا گیا ہے تو نہ ان کو علامات پوچھنے کا موقع ملتا اور نہ رسول اﷲﷺ کو جواب دینے کی ضرورت ہوتی اور نا ہی طبیعت کو اتنی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا۔
الحاصل! حدیث مذکور میں غور کرنے سے یہ بات یقینی طور پر ثابت ہوسکتی ہے کہ یہ واقعہ حالت بیداری میں ہوا۔ خواب سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ چنانچہ اس کی تصدیق ایک اور روایت سے بھی ہوسکتی ہے جہاں لکھا ہے:
۲… ’’واخرج البزار وابن ابی حاتم والطبرانی وابن مردویہ والبیہقی فی الدلائل وصححہ عن شداد بن اوس رضی اﷲ عنہ قال قلنا یا رسول اﷲ کیف اسرے بک فقال صلیت باصحابی العتمۃ بمکۃ معتماً فاتانی جبریل بدابۃٍ بیضاء فوق الحمار ودون البغل (الی ان قال) ثم انصرف بی فمررنا بعیر قریش بمکان کذا وکذا وقد اضلوا بعیر الہم قد جمعہ فلان فسلمت علیہم فقال بعضہم ہذا صوت محمد ثم اتیت اصحابی قبل الصبح بمکۃ فاتانی ابوبکر فقال یا رسول اﷲ این کنت اللیلۃ قد التمستک فی مکانک فقلت اعلمت انی اتیت بیت المقدس اللیلۃ فقال یا رسول اﷲانہ مسیرۃ شہر فصفہ لی قال ففتح لی صراط کانی انظر الیہ لا تساتونی عن شیٔ الانباء تکم عنہ فقال ابوبکر رضی اﷲ عنہ اشہد انک رسول اﷲ وقال المشرکون انظروا الیٰ ابن ابی کبشۃ زعم انہ اتی بیت المقدس اللیلۃ فقال