جسم مع روح مراد ہے۔ کیونکہ ابوجہل صرف آپ کی روح کو نماز پڑھنے سے نہیں روکتا تھا۔
اسی طرح اور بیسیوں ایسے مقامات ہیں جہاں لفظ عبد سے روح مع جسد مراد ہے۔ میں انہیں چند مقامات پر اکتفاء کرتا ہوا۔ آیت مذکورہ الصدر سے معراج جسمانی کے استدلال پر مزید روشنی ڈالتا ہوں۔ سو واضح رہے کہ آیت مذکورہ کا مفہوم اسراء ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ متقدمین کا اس میں اختلاف ہے کہ اسراء اور معراج دونوں ایک ہی ساتھ ہوئیں یا الگ الگ۔ درصورت اوّل تو ہمارا استدلال بالکل صاف اور ظاہر ہے۔ لیکن درصورت ثانیہ واقعی ہمارے استدلال میں بالکل مباینت ومفارقت ہے۔ قطع نظر اختلاف متقدمین کے واضح رہے کہ الحمدﷲ! ہمارا استدلال صورت اوّل ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ لیجئے! اب اس کی دلیل بھی سنتے جائیے۔
امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں باب باین الفاظ باندھا ہے کہ ’’باب کیف فرضت الصلوٰۃ لیلۃ الاسرائ‘‘ یعنی باب ہے اس مسئلہ کا کہ جس رات رسول اﷲﷺ کو سیر کرائی گئی اس میں نماز کیونکر فرض ہوئی؟ حافظ ابن حجرؒ اب مذکور کے الفاظ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ ’’والصلوٰۃ انما فرضت فی المعراج تدل علیٰ اتحاد ہما عندہ وانما افرد وکلا منہما بترجمۃ لان کلا منہما علیٰ قصۃ مفردۃ وان کان واقعا معاً (فتح الباری ص۴۵۱)‘‘ یعنی نماز تو معراج میں فرض ہوئی تھی۔ لیکن امام بخاریؒ کے نماز کی فرضیت کو اسراء سے تعبیر کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاریؒ کے نزدیک معراج اور اسراء دونوں ایک ہی رات میں واقع ہوئیں اور امام بخاریؒ نے اسراء اور معراج کا اس لئے الگ الگ باب باندھا ہے کہ ہر ایک ان دونوں میں سے اپنے اندر ایک مستقل قصہ رکھتا ہے۔ اگرچہ معراج اور اسراء کا وقوع معاً ایک ہی رات میں ہوا۔ لیکن الگ الگ باب باندھنے پر وہی مصلحت پیش نظر ہے جو مذکور ہوئی اسی طرح حافظ ابن حجرؒ ایک اور جگہ رقمطراز ہیں۔ ’’ان الاسراء وقع مرتین مرۃ علی انفرادہ ومرۃ مضموماً الیہ المعراج وکلاہما فی الیقظۃ (فتح الباری ص۴۵۲)‘‘ یعنی رسول اﷲﷺ کو دو مرتبہ سیر کرائی گئی۔ ایک مرتبہ معراج کے ساتھ اور ایک مرتبہ بغیر معراج کے۔لیکن دونوں ہی مرتبہ حالت تیقظ (بیداری) میں ہوئی۔ یہی حافظ صاحب ایک اور جگہ رقمطراز ہیں۔ ’’وایراد ہذا الحدیث فی باب المعراج عما یؤید ان المصنف یرے اتحاد لیلۃ