معراج کی تاریخ اور وقت
میں اختلاف ہے۔ مشہور اور اصل بات یہ ہے کہ آپﷺ کو معراج جسمانی بعد نبوت کے ہوئی۔ نبوت سے قبل والا قول ہیچ اور بے اصل ہے۔ چنانچہ حافظہ ابن حجرؓ فرماتے ہیں ’’فقیل کان قبل المبعث وھو شاذ الا ان حمل علے انہ وقع حینئذ فی المنام (فتح الباری ج۵ ص۴۵۲)‘‘ یعنی اور کہاگیا ہے کہ آپﷺ کو معراج جسمانی نبوت کے شرف حاصل ہونے سے پہلے ہوئی۔ لیکن یہ قول بے اصل ہے۔ ہاں! اگر قبل نبوت کی معراج کو معراج روحانی سے تعبیر کیا جائے تو ممکن ہے۔ بلکہ حافظ صاحب ص۴۵۲ پر فرماتے ہیں: ’’واما کونہ قبل البعث فلا یثبت‘‘ لیکن نبوت سے قبل والا قول سو یہ ثابت ہی نہیں۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں۔ ’’ومنہا قولہ وذالک قبل ان یوحی الیہ وھو غلط (تفسیر لباب التاویل ج۱ ص۱۰)‘‘ اور بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ آپﷺ کو معراج جسمانی نبوت سے پہلے ہوئی سو یہ قول غلط ہے۔ اب جس طرح وقت معراج میں اختلاف ہے اسی طرح تعیین ماہ میں بھی اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک آپ کو معراج ربیع الاوّل میں ہوئی اور بعض کے نزدیک ربیع الآخر میں اور بعض کے نزدیک رجب میں اور بعض کے نزدیک رمضان میں ہوئی۔ بعض کے نزدیک آپ کو معراج شوال میں ہوئی۔ لیکن علامہ ابن حزم اور ابن عبدالبر اور امام نووی رجب ہی کے قائل ہیں۔
(فتح الباری ص۴۵۳)
ہاں! مختلف اقوال سے اصل قصہ کے بے اصل ہونے پر شبہ نہ کرنا چاہئے۔ کیونکہ تعدد معراج کے صحیح مان لینے پر تمام اختلاف رفع ہوسکتا ہے۔ (اور یہی ٹھیک ہے)
معراج جسمانی کے نقلی دلائل
میں سے سب سے اوّل قرآن شریف کے استدلال کو مقدم کیا جاتا ہے۔ گویہ استدلال اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک نیا اور انوکھا استدلال ہے اور ممکن بلکہ بہت ہی قرین قیاس ہے کہ بعض کوتاہ بین اپنی تنگ نظری کے باعث اس استدلال پر اعتراض قائم کر دیں۔ لیکن میں ایسے حضرات پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ استدلال اور کل مضمون کو اوّل سے آخر تک پڑھنے کے بعد جو آپ کا جی چاہے اعتراض کریں۔ لیکن للّٰہ مضمون ختم کرنے سے قبل کسی اعتراض کو اپنے دل میں جگہ دینے کی خواہش نہ کریں۔ لیجئے اب سنئے!