لوحوں سے جب چاہئے قرآن شریف سنئے یا غزل یا گانا۔
۳… کیا کوئی اپنی عقل پر نازاں ہونے والا بتاسکتا ہے کہ اتنی مسافت بعیدہ سے جو دو شخص ایک جست کے تار کے ذریعہ باہم کلام کر لیتے ہیں۔ اس کی حقیقت کیا ہے۔
۴… کیا کوئی فلاسفر یا عقل کا مجسم پتلا ہمیں بتاسکتا ہے کہ نور (روشنی کی حقیقت) کیا ہے۔
صاحبان! اس قسم کی مثالیں آپ کو ہزاروں دی جاسکتی ہیں۔ لیکن بخوف طوالت ان ہی پر اکتفاء کرتا ہوا میں آپ سے دریافت کرتا ہوں کہ جب انسانی عقلیں ان ظاہری اشیاء کے سمجھنے سے قاصر ہیں اور ان کی عقلیں ان چیزوں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتیں تو بھلا اس شہنشاہ دو جہان علّام غیوب کی بتائی ہوئی بات پر کس منہ سے اعتراض کرتے ہیں؟ اور اس کی بات پر کس اصول کے اعتبار سے اپنی عقل کو دخل دیتے ہیں؟ بات اصل یہ ہے کہ جس چیز کا انسان کا مشاہدہ نہیں ہوتا اور وہ اس کی اصلیت سے لاعلم ہوتا ہے تو وہ اس چیز کے وقوع کو ایک موہومی شے سے زیادہ دقعت نہیں دیتا۔ مثلاً اگر کسی مادر زاد نابینا کے سامنے نور (روشنی) کا حال بیان کیا جائے تو وہ بھی کہے گا کہ ایسی چیز کا وجود محال ہے یا اگر فرضاً کوئی شخص آپ کے سامنے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کرے جس کے تین تو ہاتھ ہوں اور چار ٹانگیں اور چار ہی آنکھیں تو کیا آپ اس شخص کا یہ ذکر بغیر تفتیش کئے ماننے پر تیار ہوں گے؟ نہیں کبھی نہیں۔ کیوں! اس لئے کہ آپ نے اس شخص بیان کنندہ کے بیان سے پہلے نہ تو کبھی ایسے شخص کا مشاہدہ کیا اور نہ ہی کسی اور سے سنا۔ ٹھیک! اسی طرح جب کفار مکہ اور عقلی پتلوں نے معراج جسمانی جیسے عظیم الشان وقوع کا حال سنا تو بعض نے تو محض عناد اور از راہ تعصب اس کا انکار کیا اور بعض بوجہ عقل کے مطابق نہ معلوم ہونے کے اس کے منکر ہوئے۔ اگر معراج جسمانی یا اس جیسا کوئی اور واقعہ قبل وبعد وقوع معراج کے ہوتا رہتا تو یقینا نہ تو عام لوگ ہی اس کے منکر ہوتے اور نہ صحابہ کرامؓ کے بعض افراد ہی مرتد ہوتے۔ گو قادر مطلق نے بانئی اسلام حضرت محمد مصطفیﷺ کے ہاتھوں بہت سے ایسے بعید از عقل امور وجود پذیر کرائے۔ جیسا کہ امام نوویؒ فرماتے ہیں: ’’ہذا دلیل علے ان اﷲ تعالیٰ یجعل فیما یشاء من الجماد تمیزا ونظیرہ قول اﷲ تعالیٰ وان منہا لما یہبط من خشیۃ اﷲ وقولہ تعالیٰ وان من شیٔ الایسبیح بحمدہ ولکن لا تفقہون تسبیہم وقولہﷺ الیّ لا عرف حجرا بمکۃ کان یسلم علّے وحدیث الشجرتین اللتیسن اتتاہﷺ وحدیث حسنین الجزع وتسبیح الطعام وفرار حجر