تمہید!
الحمد لولیہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ۰ اما بعد!
حضرات! معراج جسمانی کی حقیقت کا انکشاف مذہبی دنیا میں مدت دراز سے ہورہا ہے۔ موافق اور مخالف نے اپنے اپنے مذاق کے مطالق مسئلہ ہذا کو بے نقاب کرنے میں مختلف پہلو اختیار کئے۔ گو مغربی خیالات کی خلیج سے متجاوز ہونے والوں اور یورپ کے دماغی اختراع کو دنیا کے فاتح، ریفارمر، مصلح اعظم، نبی اکرم محمد مصطفیٰﷺ کے فرمان سے ٹکرانے والوں کا زیادہ تر رجحان عقلی امور پر ہوتا جارہا ہے اور روایتی امور کو عقل کی میزان میں توازن کرنے کا خیال ان کے دماغوں میں سرعت کے ساتھ گھس رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامی احکام کے سیلاب عظیم نے ان عقلی پتلوں کی سفیہانہ چالوں کو بے حقیقت ثابت کر دیا۔ آج دنیا میں بہت سے امور آپ دیکھتے ہیں جو بظاہر حیرت زا ہیں۔ لیکن چونکہ ان ان اشیاء کا رواج ترقی پکڑ گیا اور لوگ ان کے دیکھنے سننے استعمال میں لانے کے خوگر اور عادی ہوگئے۔ لہٰذا وہ چیزیں تحیر عقلی کے دائرہ سے متجاوز ہوکر حقیقتاً ایک ’’عادی شے‘‘۔ کی مانند تصور کی جانے لگیں۔ اب نہ تو ان نو ایجاد چیزوں کے سننے ہی سے کوئی حیرت ہوتی ہے اور نہ ان کے انکاری ہونے کی کوئی سبیل نکالی جاتی ہے۔ غرض کہ جن چیزوں کو ہم بدیہی سمجھتے ہیں ان کی حقیقتیں ایسی نظری ہیں کہ ان کے ادراک سے اب تک ہما شما کی عقلیں حیران ہیں۔ ہماشما تو بجائے خود رہے جب کہ بڑے بڑے حکماء اور فلاسفر بھی ان کی حقیقت کے ادراک سے عاجز نظر آتے ہیں۔ یہاں بطور تفہیم کے چند مثالیں لکھی جاتی ہیں۔ بغور ملاحظہ ہوں۔
۱… کیا کوئی عقل کا پتلا ہمیں بتاسکتا ہے کہ یہ جو ایک برقی رو (بجلی کی روشنی) ایک جگہ سے نمودار ہوکر غیر کسی آلہ کے ہزاروں لاکھوں میل طے کرتی ہوئی صرف اسی جگہ اپنا ذاتی اثر ظاہر کرتی ہے جہاں ان کی خواہش ہوتی ہے اسی بجلی کے روشنی کے ذریعہ ہی سے آپس میں بات چیت کر لیتے ہیں تو اس کی حقیقت کیا ہے۔
۲… کیا کوئی عقلی امور کو ترجیح دینے والے حضرت ہمیں بتاسکتے ہیں کہ (گراموفون) گانے والی مشین کی کیا حقیقت ہے؟ غور فرماویں کہ کس طرح اس کے بنانے والے نے انسانی آواز کو مقید کر کے جمادی لوحوں (بے حس تشتریوں) میں اتارا ہے۔ انہیں بے زبان خشت نما جمادی