M!
پہلے اسے ملاحظہ فرمائیے!
حضرات! امر الٰہی (نبوت وغیرہ) کے ظہور کے وقت دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں:
۱… ایک وہ جو اپنے اندر صداقت کی روح اور قبول حق کا فطرتی مادہ رکھتے ہیں۔
۲… دوسرے وہ جو عنادیت اور نفسانیت کے تاریک ترین پہلو کو اپنے اندر لئے ہوئے ہوتے ہیں۔
رسول عربی (روحی فداہ) کی بعثت کے وقت دنیا میں دونوں قسم کے لوگ موجود تھے۔ گو صداقت کی روشنی اور نور اسلام نے عناد کی تاریکیوں کو اپنی ضیاء پاشیوں سے محجوب کر رکھا تھا۔ تاہم ہنوز خبیث طبیعتیں اپنی فتنہ پردازانہ حیثیتوں کو فراموش نہ کی ہوئی تھیں۔ بات چاہے کیسی ہی حق اور سچ ہوتی لیکن معاندین (سرکش) اپنی جبلی عادت (انکار حق) کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ معمولی سے معمولی بات کو بھی بغیر انگشت نمائی کئے نہ چھوڑنا گویا ان کی طبیعت بن چکی تھی۔
جب معمولی باتوں میں ان کی یہ حالت اور پوزیشن تھی؟ تو بھلا معراج جیسے عظیم الشان مسئلہ کو بلاچون وچرا تسلیم کرنا تو ان کے لئے باعث زحمت وخفت ہی تھا۔ اسی واسطے جب انہوں نے آپﷺ سے یہ تعجب انگیز واقعہ سنا اور اس کا ثبوت بھی کافی طور پر بہم پہنچ چکا تو نہایت ہی تمسخرانہ لہجے سے ہذا ساحر کذاب کہہ کر اس کو درہم برہم کر دیا۔ یہ تو حالت تھی کفار مکہ کی کہ انہوں نے بھی اسراء اور معراج کے وقوع کو محالات عقلیہ میں سے گرد ان کر ان کی صداقت اور وقوع کا انکار کیا۔ لیکن آہ! شومی قسمت سے اہل اسلام کے بعض افراد اور خدائی طاقت وقدرت کے اقراریوں نے بھی اس جگہ سخت ٹھوکر کھائی اور قدرت الٰہیہ کے مسلمہ اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے محض توہمات کے چکروں اور بھول بھلیوں میں پڑ کر ’’اسلام‘‘ کو بھی بٹہ لگایا۔ لہٰذا برائے افادۂ عوام وخیرخواہی مسلمانان چند سطور محرر ہیں۔ نکتہ چیں اور مخلص دوست موافقین اور مخالفین ذرا ٹھنڈے دل سے ملاحظہ فرما کر اپنی غیرت ایمانی کا ثبوت دیں اور اپنی روحانی وجسمانی یا عملی واعتقادی حالت کو درست کر کے اجر دارین کے مستحق ہوں۔ واﷲ الموفق الصواب والیہ المرجع والمآب! خاکسار! عبدالرحمن!